روزنامہ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے اپنی ۱۴؍ فروری کی اشاعت میں ایک تصویری خبر شائع کی ہے جس میں آر ایس ایس کے صدر دفتر کی بابت بتایا گیا ہے کہ دہلی ہی میں ۴؍ ایکڑ کے قطعہ اراضی پر تین بارہ منزلہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جن میں دفاتر اور کانفرنس ہال کے علاوہ ۳۰۰؍ کمرے ہیں ، ۲۷۰؍ کاروں کی پارکنگ کی جگہ ہے،
روزنامہ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے اپنی ۱۴؍ فروری کی اشاعت میں ایک تصویری خبر شائع کی ہے جس میں آر ایس ایس کے صدر دفتر کی بابت بتایا گیا ہے کہ دہلی ہی میں ۴؍ ایکڑ کے قطعہ اراضی پر تین بارہ منزلہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جن میں دفاتر اور کانفرنس ہال کے علاوہ ۳۰۰؍ کمرے ہیں ، ۲۷۰؍ کاروں کی پارکنگ کی جگہ ہے، انتہائی جدید (الٹرا ماڈرن) آڈیٹوریم ہے، ایک لائبریری ہے، اسپتال ہے اور مندر ہے۔ اخبار مذکور کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایسا شیش محل ہے جس پر دہلی انتخابی مہم کے دوران کسی نے بات نہیں کی۔‘‘ خبر میں شیش محل کا حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم مودی نے اروند کیجریوال کی رہائش گاہ کو شیش محل کہہ کر بار بار اُنہیں ہدف تنقید بنایا تھا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ بی جے پی کا ایک ہزار کروڑ کی لاگت سے بنایا گیا صدر دفتر آر ایس ایس کے اس ہیڈکوارٹرز کے علاوہ ہے مگر ان دو تعمیرات کو کسی نے شیش محل کا نام نہیں دیا۔
ہوسکتا ہے اروند کیجریوال کی رہائش گاہ کو اب کبھی شیش محل نہ کہا جائے کیونکہ جس مقصد کے تحت اسے یہ نام دیا گیا تھا وہ پورا ہوچکا ہے۔ انتخابی بیانئے اسی لئے وضع کئے جاتے ہیں تاکہ رائے دہندگان کو کسی پارٹی یا اُس کے سربراہ یا اُس کے کسی لیڈر سے برگشتہ کیا جائے۔ نئی انتخابی مہم نئے بیانئے لے کر آتی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے ایسے بیانیوں کی سونامی آئی ہوئی ہے۔ ان بیانیوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان کا مقصد آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔ مخالف پارٹیاں اس کا نوٹس نہیں لیتیں ایسا نہیں ہے مگر نوٹس لینے سے ہوتا کیا ہے؟ الیکشن کمیشن تمام اعتراضات کو ٹال دیتا ہے اور اگر جواب دیتا بھی ہے تو مسترد کرتے ہوئے۔ یہی دیکھئے کہ ’’کپڑوں سے پہچاننے‘‘ کے بیانئے پر کیا کارروائی ہوئی؟ ’’۸۰:۲۰‘‘ کے بیانئے کی کس نے گرفت کی؟ ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟
ایسے بیانات کی فہرست بنائی جائے تو ہمیں یقین ہے کہ طویل فہرست بن جائیگی مگر ایک ایک بیان کے سامنے یہ لکھنا ہو کہ کیا کارروائی ہوئی تو وہ خانہ خالی رہ جائے گا۔ ایسے دور میں جب الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں کو ذمہ داریوں کی روح کے مطابق ادا کرنے سے احتراز کررہا ہو اور کوئی معاملہ عدالت میں جائے تو وہاں کافی وقت لگ جاتا ہو، گمراہ کن سیاسی و انتخابی بیانیوں کا نوٹس کوئی لے سکتا ہے اور مؤثر جواب کوئی دے سکتا ہے تو وہ عوام ہیں ، رائے دہندگان ہیں ، مگر ایسا لگتا ہے کہ اب عوام بھی بہت سی باتوں کا بُرا نہیں مانتے، وہ اُصولی اور غیر اُصولی باتوں کے درمیان فرق کرنے سے زیادہ اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ اُنہیں کیا مل رہا ہے۔ اسی عوامی رجحان کے پیش نظر ’’ریوڑیاں بانٹنے‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور ایسا لگتا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اس سلسلے سے خوش ہے۔
ایسے میں کیا ہوسکتا ہے؟ ایک طریقہ جو ہماری سمجھ میں آتا ہے، یہ ہے کہ سماجی اور غیر سرکاری تنظیمیں عوام میں جاجاکر اُنہیں جمہوری ذمہ داریوں کے تئیں بیدار کریں ، اُن میں وسیع تر مفاد کا احساس جگائیں اور ووٹوں کے استعمال کے تعلق سے اُن میں ذمہ دارانہ طرز عمل کا احساس پیدا کریں ۔ اس طریقے سے گمراہ کن سیاسی بیانیوں کو شکست دی جاسکتی ہے مگر یہ کام نہ تو ایک دن کا ہے نہ ہی کسی ایک تنظیم کا۔ اس کیلئے سب کو جڑنا پڑے گا اور جڑے رہنا پڑے گا۔یہ کام عام آدمیوں کا بھی ہے کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی ذہنی تربیت کرتے رہیں ۔