وطن عزیز کے کسی بھی شہر کے مخدوش علاقوں ، کچی بستیوں اور جھگی جھوپڑیوں میں شہری سہولیات کتنی ہوتی ہیں او رجو ہوتی ہیں وہ کس حال میں اپنے ہونے کی داستان سنا رہی ہوتی ہیں اس کا اندازہ سب کو ہے۔
EPAPER
Updated: December 24, 2024, 1:53 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
وطن عزیز کے کسی بھی شہر کے مخدوش علاقوں ، کچی بستیوں اور جھگی جھوپڑیوں میں شہری سہولیات کتنی ہوتی ہیں او رجو ہوتی ہیں وہ کس حال میں اپنے ہونے کی داستان سنا رہی ہوتی ہیں اس کا اندازہ سب کو ہے۔
وطن عزیز کے کسی بھی شہر کے مخدوش علاقوں ، کچی بستیوں اور جھگی جھوپڑیوں میں شہری سہولیات کتنی ہوتی ہیں او رجو ہوتی ہیں وہ کس حال میں اپنے ہونے کی داستان سنا رہی ہوتی ہیں اس کا اندازہ سب کو ہے۔ چونکہ یہاں رہنے والوں کی آواز سنی نہیں جاتی اور اُن کے اپنے نمائندے بھی اُنہیں ووٹ بینک سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اس لئے شہری سہولتوں کا فقدان چھپائے چھپ نہیں پاتا۔ اب حکومت، کسی خاص مہمان کی آمد پر ایسی بستیو ں اور علاقوں کو پردے سے ڈھانک دیتی ہے۔ اِس ’’تدبیر‘‘ میں اِتنی بُرائی نہیں جتنی مہمان کی واپسی کے بعد بھی ان علاقوں کی درستی اور تعمیر نو کی فکر نہ کرنا ہے۔ فکر کی جائے تو جب اگلی بار کوئی مہمان آئیگا تب پردہ لگانے کی خفت نہیں اُٹھانی پڑے گی مگر شاید ہمارے ارباب اقتدار کو کچھ سیکھنے اور مکافات ِ عمل کی فکر کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔
کیا یہ اس لئے ہوتا ہے کہ مخدوش علاقوں ، کچی بستیوں اور جھگی جھوپڑیوں میں رہنے والے ٹیکس ادا نہیں کرتے؟ جب بھی ٹیکس کی بات ہوتی ہے تو دیگر تمام ٹیکسوں کو بھول کر ہر خاص و عام کی توجہ انکم ٹیکس پر مرکوز ہوتی ہے۔ بلاشبہ، وطن عزیز میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کم ہے۔ اتنی بڑی آبادی میں سے صرف ۳ء۵؍ کروڑ (۲ء۸۹؍ فیصد) لوگ ہی آمدنی ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر دیگر ٹیکس تو ان سے اِس طرح وصول کئے جاتے ہیں جیسے اُنہیں ناکردہ گناہی کی سزا دینا مقصود ہو۔ حکومت نے کئی دوسرے ٹیکسو ں کو ضم کرکے یکم جولائی ۲۰۱۷ءسے ایک نیا ٹیکس نظام نافذ کیا ہے جسے جی ایس ٹی کہا جاتا ہے۔ حکومت کو جی ایس ٹی کی وصولی کےاعلان میں بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے اور اس اعلان کے سبب ہی ہر خاص و عام جان جاتا ہے کہ کتنے لاکھ کروڑ کا جی ایس ٹی وصول ہوا۔ مگر کم لوگوں کو اس کی ادائیگی کی تفصیل سے آگاہی ہوپاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے : متوسط آمدنی کا جال
آکسفم کی ایک رپورٹ سے واضح ہوتاہے کہ آبادی کے وہ طبقات سب سے زیادہ جی ایس ٹی ادا کرتے ہیں جو حاشئے پر ہیں ۔ ۲۲۔۲۰۲۱ء کے اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کم و بیش دو تہائی (۶۴ء۳؍ فیصد) جی ایس ٹی اُن لوگوں کا مرہون منت ہے جو کمزور طبقات کہلاتے ہیں ۔ ایک تہائی (۴۰؍ فیصد) متوسط طبقے کی جانب سے آتا ہے اور محض۳؍ سے ۴؍ فیصد ان لوگوں کی جانب سے ادا ہوتا ہے جو متمول ہیں ۔ آسان لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ غریب بھلے ہی غریب ہے مگر چونکہ اس طبقے کی آبادی زیادہ ہے اس لئے دودھ سے لے کر نون تیل اور دیگر صارف اشیاء پر لگائے گئے جی ایس ٹی کے سبب اسی طبقے سے سب سے زیادہ وصولی ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ طنز کے پیرائے میں جو تشریح راہل گاندھی نے کی اُس کی معنویت کم نہیں ۔ راہل گاندھی نے اسے گبر سنگھ ٹیکس نام دیا تھا جس کی گونج اور دیگر پارٹیوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان راگھو چڈھا نے بھی گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران جی ایس ٹی کو گبر سنگھ ٹیکس ہی کا نام دیا۔
اسے طرفہ تماشا ہی کہنا چاہئے کہ ایک طرف سماج کے غریب تر طبقا ت کو مفت راشن دیا جاتا ہے مگر دوسری طرف مفت راشن لینے والوں ہی کی جیبوں پر اس طرح ڈاکہ بھی ڈالا جاتا ہے اور سب سے زیادہ جی ایس ٹی انہی سے لیا جاتا ہے۔ یہ نئے بھارت کی نئی تصویر ہے۔ بے چارہ غریب جانتا ہی نہیں کہ وہ ٹیکس دہندہ ہے۔