انگریزی میں سیریا کہلانے والے ملک شام میں بشار الاسد کی مضبوط سمجھی جانے والی حکومت اتنے کم وقت میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیگی اس کا کسی کو احساس اور اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے بھی نہیں تھا کہ حکومت پر بشار الاسد کی گرفت کافی مستحکم تھی۔
EPAPER
Updated: December 09, 2024, 2:03 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
انگریزی میں سیریا کہلانے والے ملک شام میں بشار الاسد کی مضبوط سمجھی جانے والی حکومت اتنے کم وقت میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیگی اس کا کسی کو احساس اور اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے بھی نہیں تھا کہ حکومت پر بشار الاسد کی گرفت کافی مستحکم تھی۔
انگریزی میں سیریا کہلانے والے ملک شام میں بشار الاسد کی مضبوط سمجھی جانے والی حکومت اتنے کم وقت میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیگی اس کا کسی کو احساس اور اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے بھی نہیں تھا کہ حکومت پر بشار الاسد کی گرفت کافی مستحکم تھی۔ ۲۰۱۱ء میں اسی حکومت نے مظاہرین کو بآسانی منتشر کردیا تھا مگر اب محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کا استحکام اور امور مملکت پر سربراہ مملکت کی مضبوط گرفت کچھ اور نہیں ، نگاہوں کا دھوکہ تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک کے بعد ایک کئی شہر حکومت مخالف عناصر کے تسلط میں آتے چلے گئے اور پھر دمشق بھی ڈھیر ہوگیا؟ اس کا جواب مشکل معلوم ہوتا ہے مگر مشکل ہے نہیں ۔ ان لوگوں کیلئے تو بالکل مشکل نہیں ہے جو حکومت اور عوام کے رشتے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں ۔ یہ ڈور جتنی مضبوط ہوسکتی ہے اتنی ہی کمزور بھی ہوتی ہے۔ اگر حکومت عوام کی ہمدرد ہے اور ان کے احساسات و جذبات کا احترام کرتی ہے اور ان کی بالادستی کو قبول کرتی ہے تو عوام اپنی حکومت ہی کے ساتھ رہتے ہیں ، اس پر کسی اور کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیتے مگر جب حکومت عوام کی قیمت پر اپنے اقتدار کی حفاظت کرنے لگتی ہے تو رفتہ رفتہ اس کی جڑوں کا کمزور ہونا بالکل طے ہوجاتا ہے۔ عوام نے بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کو چھ دہائیاں دیں اور اس کے صلے میں انہیں کیا ملا؟ یہی کہ پرامن مظاہرین کو دشمن سمجھ لیا جائے اور ایسے حالات پیدا کردیئے جائیں کہ عوام کو گھر چھوڑ کر کہیں اور پناہ لینے ہی میں اپنی جان اور خاندان کی سلامتی دکھائی دے۔ حکومت کا تختہ پلٹ اور بشار الاسد کے بارے میں یہ اطلاعات کہ وہ فرار ہیں ایک ایسے خاندان کی طویل داستان حکومت کا المناک اختتام ہے جس کی ساٹھ سالہ حکومت اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ حکومت کو بے دخل کرنے والے گروپوں کے بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا اس لئے ٹھیک نہیں کہ بیک وقت کئی گروپ، جنہیں عالمی ذرائع ابلاغ باغی کہہ رہے ہیں ، بشار حکومت کو ٹھکانے لگانے کیلئے سرگرم تھے۔ ان گروپوں کی پشت پناہی بھی کوئی ایک ملک نہیں کررہا تھا اس لئے سردست اس موضوع پر کچھ کہنا مناسب نہیں ، جیسے جیسے پرتیں کھلتی جائینگی ویسے ویسے از خود واضح ہوتا جائیگا کہ بقول شاعر:
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
یہ بھی پڑھئے: غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت
بشار الاسد کے خلاف عوامی بے چینی ہفتے دو ہفتے کی کہانی نہیں ، ۱۳؍ سال سے زیادہ کا قصہ ہے۔ مگر یہ تختہ پلٹ ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرق وسطیٰ کے حالات حد درجہ نازک ہیں ، غزہ، لبنان، یمن اور ایران کو سخت چیلنجوں کا سامنا ہے، گزشتہ ۱۳؍ سال سے اسد حکومت کیخلاف بڑھتی بے چینی اور خانہ جنگی کے سبب کم و بیش ۵ ؍ لاکھ شہریوں کا فوت ہونا اور ۶۸؍ لاکھ لوگوں کا شام سے انخلاء کرنا بذات خود ایک بڑے سیاسی، سماجی اور انتظامی بحران کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ بشار الاسد کی آنکھیں بہت پہلے کھل جانی چاہئے تھیں مگر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس کو یا تو سمجھا نہیں یا غرور اقتدار میں اس کے عواقب سے چشم پوشی کی۔ جو بھی ہو افسو س یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے بعد شام دوسرا ملک ہے جس نے حیرت انگیز مناظر دیکھے۔ یہ حکومت جمہوریت کو فروغ دے کر اپنے اقتدار کی حفاظت کرسکتی تھی مگر حکمرانوں کی آمریت اقتدار کا تحفظ نہیں ، بیخ کنی کررہی تھی۔n