Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

لو‘ کے جھکڑ اور ہوا کے خوشگوار جھونکے

Updated: March 18, 2025, 1:42 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اس میں شک نہیںکہ جارح ہندوتوا تحریک کو گزشتہ دس گیارہ سال میں کافی طاقت ملی ہے اور اس تحریک کے زیر اثر جو کچھ ہوا اُس کو کسی نہ کسی سطح پر قبولیت بھی حاصل ہوئی ہے اور اسی کے زیر اثر انتخابی نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں مگر قبولیت محدود ہے اور انتخابی نتائج کی ایک سے زائد وجوہات ہوتی ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اس میں  شک نہیں کہ جارح ہندوتوا تحریک کو گزشتہ دس گیارہ سال میں  کافی طاقت ملی ہے اور اس تحریک کے زیر اثر جو کچھ ہوا اُس کو کسی نہ کسی سطح پر قبولیت بھی حاصل ہوئی ہے اور اسی کے زیر اثر انتخابی نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں  مگر قبولیت محدود ہے اور انتخابی نتائج کی ایک سے زائد وجوہات ہوتی ہیں ۔ ہم اپنے مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید کہنا چاہتے ہیں  کہ اکثریتی فرقے کی بڑی آبادی ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو اب بھی اپنا سرمایہ ٔ افتخار سمجھتی ہے ۔ اگر وہ خاموش ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر خاص و عام کسی رجحان کو مسترد کرنے کیلئے سڑکوں  پر نہیں  آتا۔ عوام سڑکوں  پر تب آتے ہیں  جب روزمرہ کی زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے  یا اُن مسائل کیلئے آتے ہیں  جو اُنہیں  براہ ِ راست متاثر کرتے ہیں ۔
 جارح ہندوتوا تحریک کو ’’سازگار ماحول‘‘ ملنے کے باوجود اسے ہر جانب سے قبولیت نہیں  ملی۔ اس کی تازہ مثال ورنداون (یوپی) میں  واقع ’’بانکے بہاری مندر‘‘ کے ارباب اختیار سے ملتی ہے جنہوں  نے بعض عناصر کے اس مطالبہ کو مسترد کردیا کہ مندر میں  جو پوشاک چڑھائی جاتی ہے وہ مسلم دستکاروں  سے نہ خریدی جائے۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ اس تفرقہ پرور مطالبہ کے پیش نظر مندر کے بزرگ پجاری گیانندر کشور گوسوامی نے مطلع کیا کہ اس سلسلے میں  مندر کے انتظامیہ کی میٹنگ میں  بالاتفاق طے پایا کہ اس مطالبے کو ’’نامنظور‘‘ کیا جائے۔اس سلسلے میں  صحافیوں  سے گفتگو کے دوران شری گیانندر کشور گوسوامی کا یہ کہنا بھی بہت اہم تھا کہ ’’جو لوگ مسلم دستکاروں  کی بنائی ہوئی پوشاک کے خلاف مہم چلا رہے ہیں ، وہ اس طبقے کو معاشی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں  مگر ہم تمام مذاہب اور تمام لوگوں  کے احترام کی اپنی روایت پر قائم رہیں  گے۔‘‘ہندوتوا وادیوں  پر اس موقف کا کیا اثر پڑا یہ ہم نہیں  جانتے مگر اس کے بعد سے خاموشی ہے جس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مندر انتظامیہ کا جواب سن کر مسلم مخالف مہم چلانے والے نچلا بیٹھ گئے۔
 یہی اس ملک کی خوبی ہے۔ صدیوں  سے مل جل کر رہنے کی روایت اتنی مستحکم ہے کہ جب بھی اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مزاحمت ازخود پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اس معاملے میں  ہوا اور مندر انتظامیہ نے تفرقہ پسندوں  کی نہ تو سنی نہ ہی اُنہیں  اپنے مطالبہ کی بنیاد پر ماحول بگاڑنے اور کشیدگی پھیلانے کا موقع دیا۔ 
 ایسے اور بھی کئی واقعات ہیں ۔ مثلاً سیلم پور کا واقعہ جس کا سرسری ذکر کل اسی کالم میں  کیا گیا۔ ہولی کے دن نمازِ جمعہ کی مناسبت سے مسلمان سڑکوں  سے گزر رہے تھے اور سامنے سے ہولی منانے والے نوجوان آرہے تھے۔ایسے ہی موقع پر ’’کچھ ہوجاتا ہے‘‘ مگر سیلم پور کا منظر دوسرا تھا۔ ہولی منانے والے نوجوان، قریب سے گزرنے والے مسلمانوں  پر (پھولوں  کی) پنکھڑیاں  نچھاور کررہے تھے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسے واقعات کی بالکل تشہیر نہیں  ہوتی۔ تشہیر اُن واقعات کی ہوتی ہے اور یقیناً عمداً کی جاتی ہے جن میں  دو فرقے ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں  یا اُن میں  تناتنی کی کیفیت ہوتی ہے خواہ وہ تھوڑی دیر کیلئے رہی ہو اور بعد میں  سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہو۔ قومی میڈیا مخصوص قسم کی خبروں  کو مخصوص انداز میں  جاری کرنے ہی کو صحافت سمجھتا ہے۔ ایسی خبریں  اور انداز اس کی پہچان بن گیا ہے۔
  عوام کو چاہئے کہ بھائی چارہ اور اتحاد کی خبروں  کا استقبال کریں  اور اُن خبروں  کو دیکھنا، سننا اور پڑھنا بند کردیں  جن کا مقصد بھائی چارہ کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK