دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما کی رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں کرنسی نوٹوں کا برآمد ہونا جتنا افسوسناک ہے اُتنا ہی اس خبر کا ۱۴؍مارچ کے بعد کم و بیش ایک ہفتہ پردۂ خفا میں رہنا اور خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد نوٹوں کی برآمدگی کو چھپانے کی کوشش کرنا ہے۔ کیا اس کا یہ معنی ہے کہ اس واقعہ پر پردہ ڈالنے کا منصوبہ بنایا جارہا تھا جو ناکام ہوگیا؟
دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما کی رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں کرنسی نوٹوں کا برآمد ہونا جتنا افسوسناک ہے اُتنا ہی اس خبر کا ۱۴؍مارچ کے بعد کم و بیش ایک ہفتہ پردۂ خفا میں رہنا اور خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد نوٹوں کی برآمدگی کو چھپانے کی کوشش کرنا ہے۔ کیا اس کا یہ معنی ہے کہ اس واقعہ پر پردہ ڈالنے کا منصوبہ بنایا جارہا تھا جو ناکام ہوگیا؟ داد دی جانی چاہئے سپریم کورٹ کی جس نے پہل کی اور اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے ازخود نوٹوں کی ادھ جلی گڈیوں کی تصویر افشاء کی۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہوا، دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جو رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی اور جس کی بنیاد پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، وغیرہ، اس کی تفصیل آپ تک خبروں کے ذریعہ پہنچ چکی ہے۔ہم اس تفصیل میں نہ جاتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ یہ معاملہ کافی سنگین ہے اور اس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد نیز عدلیہ کا وقار داؤ پر لگ گیا ہے اس لئے اس کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تفتیش بہت ضرو ری ہے جس کے ذریعہ یہ معلوم کیا جائے کہ جو پیسہ ملا وہ کس کا تھا، کہاں سے آیا تھا، محسوب تھا یا غیر محسوب، کیا کسی ایک یا زائد مقدمات سے متعلق تھا یا اس کا مقدمات سے کوئی تعلق نہیں تھا، ایک وقت میں اتنا روپیہ (جو معلوم نہیں کتنا تھا) جسٹس ورما کی رہائش گاہ پر پہنچا تھا یا الگ الگ وقتوں میں ، کس نے پہنچایا، جس نے بھی پہنچایا وہ اس کے عوض میں کیا چاہتا تھا یا یہ کوئی سازش ہے، یہ اور ایسے تمام سوالات کا جواب عوام کو ملنا چاہئے تاکہ اگر عدلیہ میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں تو اُن کے خلاف کوئی جامع طریقۂ عمل وضع کیا جائے۔
بادی النظر میں یہی شبہ ہوتا ہے کہ جج صاحب کو کسی نے رشوت دی۔ اگر یہ شک بے بنیاد ہے تو یہ بات سامنے آنی چاہئے۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ بہ عنوان: ’’جسٹس ورما کی رہائش گاہ پر آگ لگنے کے بعد ۷؍ دن میں کیا کیا ہوا اور وہ سوالات جن کا جواب نہیں ملا‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اُپادھیائے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نقدی کی برآمدگی کے خلاف ضروری اقدامات میں مسلسل مصروف رہے یعنی عدلیہ کے اعتماد اور وقار کے تحفظ کیلئے جو کچھ بھی کیا جانا چاہئے وہ ہورہا ہے لہٰذا ہمیں اُمید ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
مگر، جیسا کہ اوپر کہا گیا، آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہو اس کی پیش بندی ضروری ہے اور سپریم کورٹ ہی اس پیش بندی کو یقینی بناسکتا ہے۔ ملک میں عوام کے مسائل کم نہیں ہیں ۔ تگ و دو کے باوجود عوام کو جب اپنے مسائل کا حل دکھائی نہیں دیتا تو اُن کے پاس عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ہے۔ وہ اس بھر وسہ کے ساتھ عدالت کا رُخ کرتے ہیں کہ اُنہیں انصاف ضرور ملے گا۔ چونکہ آزاد ہندوستان میں انصاف ملتا رہا ہے اس لئے وقت کے ساتھ یہ بھروسہ مستحکم ہوتا چلا گیا ہے۔ اسے ٹھیس پہنچی تو عوام کہاں جائینگے؟ عدالتوں میں مقدمات کو فیصل ہونے میں وقت لگتا ہے، بعض اوقات کئی برس لگ جاتے ہیں اس کے باوجود عوام اپنی شکایات اور مسائل لے کر عدالت کا رُخ اس بھروسہ پر کرتے ہیں کہ دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں ہوگا۔ ججوں کی رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں کرنسی نوٹوں کی برآمدگی عوام کے بھروسہ کو متزلزل کرتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگا ۔