سنتے ہیں یہ دنیا کئی ارب سال پرانی ہے۔ غالباً سارھے چار ارب سال۔ مگر یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کئی ارب سال کے اِس دورانیہ میں کوئی دور ایسا نہیں رہا ہوگا جس میں تغیرات کو پرَلگ گئے ہوں اور اُن کی پرواز کی کوئی انتہا نہ رہ گئی ہو۔
EPAPER
Updated: April 20, 2025, 1:54 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سنتے ہیں یہ دنیا کئی ارب سال پرانی ہے۔ غالباً سارھے چار ارب سال۔ مگر یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کئی ارب سال کے اِس دورانیہ میں کوئی دور ایسا نہیں رہا ہوگا جس میں تغیرات کو پرَلگ گئے ہوں اور اُن کی پرواز کی کوئی انتہا نہ رہ گئی ہو۔
سنتے ہیں یہ دنیا کئی ارب سال پرانی ہے۔ غالباً سارھے چار ارب سال۔ مگر یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کئی ارب سال کے اِس دورانیہ میں کوئی دور ایسا نہیں رہا ہوگا جس میں تغیرات کو پرَلگ گئے ہوں اور اُن کی پرواز کی کوئی انتہا نہ رہ گئی ہو۔ ٹیکنالوجی نے بہت کچھ آسان کردیا ہے۔ اتنا آسان کہ اب آسانی خود پناہ مانگنے لگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب انسان کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کررہا ہے، ٹیکنالوجی اُس کا استعمال کررہی ہے۔ کم از کم مغربی ملکوں میں تو یہ احساس پیدا ہوگیا ہے۔ جوناتھن ہیئت کی کتاب ’’بے چین نسل‘‘ (دی اینکشس جنریشن) میں یہی بیان کیا گیا ہے۔ جوناتھن نے بچوں پر ٹیکنالوجی کے اثرات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یہ کتاب تصنیف کی جو مغربی دُنیا میں والدین کی بیداری کا اہم ذریعہ بنی۔ اس سے پہلے اُنہیں علم اور احساس نہیں تھا کہ اُن کے بچے ٹیکنالوجی کے شدید اثرات کے جال میں اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتے۔اُن کا کہنا تھاکہ ’’مَیں جنریشن زیڈ کے ایسے کسی فرد سے نہیں ملا جو کہتا ہو کہ ’’مجھے موبائل فون سے محبت ہے اور یہ آلہ میرے لئے سود مند ہے۔‘‘ جوناتھن کے بقول ’’وہ سب جانتے ہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہورہا ہے (کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ) مگر وہ خود کو محصور پاتے ہیں ۔‘‘ ابھی ہمارا معاشرہ بہت پیچھے ہے۔ وہ ٹیکنالوجی کے مضر اثرات کے خلاف متنبہ ہوسکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کر پارہے ہیں ۔
اب سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ بچے جو کھیل کئی بار کھیل چکے ہوتے تھے وہ اُس سے اوب جاتے تھے اور اس میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ موبائل اور انٹرنیٹ ایسے کھیل کی طرح ہے جس کا استعمال مزید استعمال کی راہ ہموار کرتا ہے اور صارف کو اوبنے یا اُکتانے نہیں دیتا۔ یہ دلچسپی پیدا کرتا رہتا ہے اور عدم دُہراؤ کے راستے پر گامزن رہتا ہے یعنی ندرت آمیزی (اِنوویشن) کے ذریعہ جو پہلے ہوچکا اُس سے احتراز کرتا ہے اور مزید نئی بات بتاتا اور سکھاتا ہے۔جب بڑے نہیں اوبتے تو بچے کیوں اُکتا جائیں ! مغرب میں بھی یہی ہورہا تھا۔ بقول جوناتھن ’’پوری دُنیا میں خاندانی زندگی اسکرین ٹائم سے نالاں تھی، ہر فرد اس سے نفرت کررہا تھا مگر ہر فرد اس کا شکار تھا اور اس کی نگاہیں گڑی ہوئی تھیں ۔‘‘ مگر جب اُن میں موبائل فون اور اس کے استعمال کے خلاف بیداری آنے لگی تو اُنہوں نے اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کیں جس کے نتیجے میں ’’موبائل فری ڈے‘‘ کا تصور اُبھرا جو ’’موبائل فری اسکول‘‘ کی روِش اختیار کی گئی۔
ہمارے ملک میں کئی اسکول اور کالج طلبہ کے موبائل لے کر آنے کے خلاف ہیں مگر زیادہ تر اداروں میں موبائل کی ممانعت نہیں ہے۔اسی طرح گھروں میں والدین یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے بچے رات میں کتنی دیر تک موبائل کے اسکرین پر نگاہیں مرکوز رکھتے ہیں جو اُن کے ذہن ودل کی دُنیا پر بُری طرح اثر انداز ہورہا ہے اور اُن کی نفسیاتی کیفیات کو بدل رہا ہے۔یہ طرز عمل اُس لاڈ پیار کے سبب بھی ہے جس کے تحت والدین بچوں کے بارے میں خوش گمان ہی رہتے ہیں ۔ بلاشبہ خوش گمان رہنا اچھا ہے مگر اس حد تک خوش گمان رہنا کہ بچے نقصان اُٹھانے کی طرف بڑھ رہے ہوں اس کے باوجودوالدین خاموش رہیں اچھا نہیں ہے۔