بہرائچ میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں ۔ اگر معمول پر آجائیں تب بھی کیا واقعی معمول پر آجائینگے؟ یہ شبہ اسلئے ہے کہ جو واقعات نہیں ہوئے، غیر ذمہ دار عناصر نے اُنہیں بھی واقعہ بناکر مشتہر کردیا اور ٹی وی چینلوں کے ذریعہ مفروضات کو حقائق کا درجہ دینے کی کوشش کی گئی۔
بہرائچ میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں ۔ اگر معمول پر آجائیں تب بھی کیا واقعی معمول پر آجائینگے؟ یہ شبہ اسلئے ہے کہ جو واقعات نہیں ہوئے، غیر ذمہ دار عناصر نے اُنہیں بھی واقعہ بناکر مشتہر کردیا اور ٹی وی چینلوں کے ذریعہ مفروضات کو حقائق کا درجہ دینے کی کوشش کی گئی۔ مثلاً یہ کہا گیا کہ فائرنگ سے فوت ہونے والے رام گوپال مشرا کو اذیتیں دے کر مارا گیا، اُس کے ناخن اُکھاڑ دیئے گئے، اُسے شاک دیا گیا وغیرہ۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور پولیس کا بیان اس کی نفی کرتا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہے جو فائرنگ کے زخمو ں کی تاب نہ لاسکا۔ اس کے جسم پر گولیوں (چھر ّوں ) کے نشان تو ہیں مگر اذیت رسانی کے نشانات نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود ایک خاص قسم کے پروپیگنڈے کے تحت کئے جانے والے دعوؤں کے ذریعہ نفرت پھیلانے کی مہم جاری کردی گئی۔ ایسا کوئی بھی دعویٰ جتنی دور نکل جاتا ہے، اُس کی تردید چند قدم بھی نہیں چل پاتی۔ اب پولیس چاہتی ہے کہ جو غلط باتیں پھیلا دی گئی ہیں اُن کی وضاحت ہوجائے مگر موجودہ دور میں خبریں جتنی تیزی سے پھیلتی ہیں ، اُنہیں روکتے روکتے بھی وہ کافی دور تک پہنچ چکی ہوتی ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام میں ایک دوسرے کے تئیں غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ غلط فہمیوں کی بنیاد اگر مذکورہ بالا گھناؤنا پروپیگنڈا یا ایسا ہی کوئی منافرت انگیز واقعہ یا بیان ہے تو غلط فہمی، غلط فہمی نہیں رہ جاتی، نفرت کا جذبہ اُبھار دیتی ہے، پھر کوئی واقعہ ہو یا نہ ہو، نفرت بدستور رہتی ہے۔ ایسے پروپیگنڈے سماج کو بہت بُرے طریقے سے بانٹتے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ ایسی باتیں کسی کو سمجھائی بھی نہیں جاسکتیں بالخصوص اُس وقت، جب مقصد ہی نفرت پید اکرنا ہو۔ ستم بالائے ستم یہ سب کچھ اُتر پردیش میں ہورہا ہے جہاں کچھ برسوں سے بلڈوزر کے ذریعہ اپنی پہچان کروائی جارہی ہے اور انکاؤنٹر کے ذریعہ ’’ناپسندیدہ‘‘ لوگوں سے دفاع کا حق بھی چھینا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : پھر انتخابی موسم
تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ بہرائچ کا فساد اس لئے ہوا کہ یوپی میں ضمنی انتخابات ہونے ہیں اور جس وزیر اعلیٰ کو لوک سبھا الیکشن میں حکمراں جماعت کی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، وہ ضمنی انتخابات میں پارٹی کی بہتر کارکردگی کے ذریعہ اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کی فکر میں ہے۔ اس میں کتنی صداقت ہے ہم نہیں جانتے مگر سماجی اور طبقاتی نقطۂ نظر سے اتنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں آئین کے تحفظ کا موضوع زوروشور سے مرکز ِ بحث بنا تھا اور پسماندہ سماجی طبقات نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر انڈیا اتحاد کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے بی جے پی کی مساوات بگڑ گئی تھی، اس لئے ان طبقات کو دوبارہ ہندوتوا کے زیر سایہ لانا ضروری سمجھا جارہا ہے اور شاید بہرائچ فساد کی اصل وجہ یہی ہے۔
مذکورہ نوجوان پر ہونے والی فائرنگ اور پھر اُس کی موت یہ دونوں ہی واقعات نہایت افسوسناک ہیں مگر گفتگو یا تفتیش کی ابتداء اُس کی موت سے نہیں ہونی چاہئے، بلکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس واقعہ کے پس منظر میں موجود کئی دوسرے واقعات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ پولیس کو ماقبل کے واقعات کو مساوی اہمیت دیتے ہوئے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سلسلۂ واقعات کے دوران کیا کیا ہوا۔ جس کسی شخص نے اُسے گولی ماری کیا اُس نے قانون ہاتھ میں لینے کی جرأت بلا اشتعال کی؟ پولیس کو اپنے آپ سے بھی پوچھنا ہوگا کہ جب بھیڑ اشتعال انگیز ڈی جے بجا رہی تھی اور گھروں میں گھس رہی تھی تب بھیڑ کو روکنے کیلئے کیا کیا گیا؟