خدا کا شکر ہے کہ اس سال چھبیس جولائی عافیت کے ساتھ گزر گئی۔ ہرچند کہ ممبئی کا وہ سیلاب، جس کی خوفناک یادیں اب بھی دل دہلا دیتی ہیں ، دوبارہ نہیں آیا مگر جب بھی چھبیس جولائی کی آمد آمد ہوتی ہے، اہل ممبئی ۲۰۰۵ء کے سیلاب کی دلخراش یادوں کے سبب سہم ضرور جاتے ہیں ۔
خدا کا شکر ہے کہ اس سال چھبیس جولائی عافیت کے ساتھ گزر گئی۔ ہرچند کہ ممبئی کا وہ سیلاب، جس کی خوفناک یادیں اب بھی دل دہلا دیتی ہیں ، دوبارہ نہیں آیا مگر جب بھی چھبیس جولائی کی آمد آمد ہوتی ہے، اہل ممبئی ۲۰۰۵ء کے سیلاب کی دلخراش یادوں کے سبب سہم ضرور جاتے ہیں ۔
اِس سال چھبیس جولائی کو تو عافیت رہی مگر اس سے ایک دن قبل یعنی پچیس جولائی کو ممبئی کے کئی علاقوں میں سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور اسی وجہ سے، زیادہ نہیں تو کسی حد تک، خوف کا ماحول بھی دورونزدیک دیکھا جارہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہر سال، ملک کی سب سے امیر کارپوریشن، جو ممبئی میونسپل کارپوریشن کے نام سے مشہور ہے، کے ارباب اقتدار سب کچھ ٹھیک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بارش کے ابتدائی دنوں ہی میں ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ٹھیک ہے، اس سال موسم ِ برسات میں سیلاب جیسی کوئی بڑی آفت تو نہیں آئی مگر کئی دوسری دشواریاں بہرحال ممبئی واسیوں کا تعاقب کررہی ہیں بالخصوص سڑکوں کی خستہ حالی۔ موسم باراں شروع نہیں ہوتا کہ سڑکیں تڑخنے اور پھر گڑھوں میں اُترنے لگتی ہیں ۔ موٹر گاڑی چلانے والوں کو ان گڑھوں سے کتنی تکلیف ہوتی ہے اس پر نہ تو کسی کی توجہ ہے نہ ہی کوئی توجہ دینا چاہتا ہے۔انہیں بھرنے کیلئے بارش رُکنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ بارش رُک جائے تو انہیں بھرنےکے نام پر ایسا مذاق کیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ بعض جگہوں پر تو گڑھے بھرنے کے ساتھ ہی وہ دوبارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں ۔یہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ گڑھے بھرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ سڑکوں کو پختہ بنانے کا کام سنجیدگی اور ایمانداری سے ہو۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ حکومت ِ مہاراشٹر نے ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۳ء تک کیلئے روڈ سیفٹی فنڈ کے نام پر ۸۲۳؍ کروڑ روپے کی رقم مختص کی تھی۔ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی اور اسے شہریوں کی آمدورفت کے مصائب کا احساس ہوتا تو یہ رقم مخلصانہ طور پر خرچ کی جاتی مگر ۲۰۲۳ء کا سال گزر جانے کے باوجود اس رقم میں سے صرف ۶۵؍ کروڑ روپے ہی خرچ کئے گئے تھے۔ یہ فنڈ تمام مہاراشٹر کیلئے تھا مگر اس کا دس فیصد بھی خرچ نہ کرنا حکومت کی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے جبکہ اہل اقتدار کے سامنے سڑک حادثات کی پوری رپورٹ ہوتی ہے۔ جس مدت کیلئے مذکورہ رقم مختص کی گئی تھی اُس میں یعنی ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۲ء تک ریاست کے سڑک حادثات میں ۹۱؍ ہزار افراد اپنی جانیں گنوا چکے تھے۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ حکومت جو رقومات عوامی کاموں کیلئے مختص کرتی ہے وہ عوام ہی کا پیسہ ہے۔ اس میں وہیکل سیس کے نام سے جمع ہونے والا پیسہ بھی ہے جو گاڑی خریدتے وقت ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس مد میں ریاستی حکومت نے گاڑی مالکان سے ۲۲۔۲۰۲۱ء میں ۱۳۵؍ کروڑ اور ۲۳۔۲۰۲۲ء میں ۱۷۹؍ کروڑ روپے وصول کئے تھے۔ گاڑی مالکان کو اِس ٹیکس کی ادائیگی کے باوجود راحت نہیں ملتی بلکہ حادثہ ہوجائے تو بہت کچھ گنوانا پڑتا ہے، علاوہ ازیں گڑھوں کی وجہ سے گاڑیوں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کیلئے بھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ یہ گاڑی مالکان پر دُہری مار ہے جس کا اہل اقتدار کوئی نوٹس نہیں لیتے بلکہ اکثر اوقات تو کچھ سننے کے روادار بھی نہیں ہوتے۔ اس میں شک نہیں کہ چھبیس جولائی خیریت سے گزری مگر اہل ممبئی کی خیریت کو لاحق خطرات کم نہیں ہیں ۔