اہل غزہ کا یہ مجموعی تاثر کہ’’ اپنے چہیتوں کو کھو دینے کا ماتم کریں یا جنگ بندی کی خوشی منائیں ‘‘ ایسا تاثر ہے کہ جس سے سرسری گزرنا چاہیں تو بہت آسانی سے ایسا کیا جاسکتا ہے مگر جو کچھ بھی ہوا او ر زائد از ایک سال تک ہوتا رہا اس کی تفصیل میں جائیں تو ایسا بہت کچھ ہے جو ہمیں بھی رُلا دے۔
اہل غزہ کا یہ مجموعی تاثر کہ’’ اپنے چہیتوں کو کھو دینے کا ماتم کریں یا جنگ بندی کی خوشی منائیں ‘‘ ایسا تاثر ہے کہ جس سے سرسری گزرنا چاہیں تو بہت آسانی سے ایسا کیا جاسکتا ہے مگر جو کچھ بھی ہوا او ر زائد از ایک سال تک ہوتا رہا اس کی تفصیل میں جائیں تو ایسا بہت کچھ ہے جو ہمیں بھی رُلا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نہ تو اُن کے درد کو اپنے دلوں میں محسوس کرسکتے ہیں نہ ہی جتنا غمزہ ہونا چاہئے اُتنا ہوسکتے ہیں ۔ اُن کا زخم اتنا بڑا اور گہرا ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اُنہیں تسلی نہیں دے سکتے۔ سوچئے اُس شخص کو تسلی دینا بھی چاہیں تو کیسے دی جاسکتی ہے اور کن الفاظ میں دی جائیگی جو اپنے بھرے پُرے خاندان کا اکلوتا زندہ بچ رہنے والا انسان ہے۔ اُس کے خاندان کا ایک ایک فرد اسرائیلی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا، اس کے مکان اور آس پاس کے مکانات کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، سارا مال و اسباب ملیامیٹ ہوگیا اور اب اُس کی آنکھیں پھٹی پھٹی سی رہنے لگی ہیں ۔ اُسے خواب میں بھی بمباری اور تباہی اور تاراجی اور خون کے دھبے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کی عقل کام نہیں کرتی اور زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔ہوسکتا ہے اُس نے پچھلے چودہ پندرہ مہینوں میں نہ تو کسی کو مسکراتا ہوا دیکھا ہو نہ ہی خود مسکرایا ہو۔ ہوسکتا ہے پچھلے چودہ پندرہ مہینوں میں جو کچھ ہوا اُس کےبارے میں وہ فیصلہ بھی کرنا چاہے تو نہ کرسکے کہ غزہ پر ٹوٹنے والی کون سی قیامت دل کو چیر دینے والی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے نونہالوں کو کفن پہناتے ہوئے اُس نے خود کو کفن میں لپٹا ہوا محسوس کیا ہو۔ ہوسکتا ہے اُسے غم ہو کہ اُس کے اعزہ کی صحیح طریقے سے تکفین اور تدفین تک نہیں ہوسکی۔ ہوسکتا ہے اُسے اپنے زندہ رہ جانے کا ملال ہو کہ جب خاندان کا ایک ایک فرد رخصت ہوگیا تو قضا و قدر کے مالک نے اُس کی زندگی کیوں بحال رکھی، اُسے کیوں اجتماعی قبر میں اُتر جانے کا موقع نہیں دیا۔ سوچئے کیا ہوگا ہمارا حرف ِ تسلی اگر ہم غزہ کے کسی باشندے کو تسلی دینا چاہیں !
پوری دُنیا کے اخبارات میں خبریں چھپ رہی ہیں کہ جنگ بندی معاہدہ پر دستخط ہوگئے اور اب نہ تو بمباری ہوگی نہ خون بہے گی، نہ تباہی و تاراجی ہوگی نہ ہی قتل عام کی کیفیت رہے گی مگر جنگ بندی کا اعلان اور جنگ کا خاتمہ دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ جنگ کی خاصیت یہ ہے کہ ختم ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوتی۔ ٹھیک ہے بمباری رُک جاتی ہے، بمبار طیاروں کی گھن گرج سنائی نہیں دیتی او ر خون بہنے کا سلسلہ موقوف ہوجاتا ہے مگر کیا جنگ اپنا اثر دکھانے سے باز آتی ہے؟ جنگ، یادو ں اور آنسوؤں میں باقی رہتی ہے، غذائی قلت میں اپنے وجود کو منواتی ہے، معاشی سرگرمیوں کے ٹھپ پڑا رہنے سے اپنے جاری رہنے کا اعلان کرتی ہے، شہروں کی تعمیر نو کی رکاوٹوں میں خود کو منواتی ہے اور مجبو ری اور معذوری کے قالب میں ڈھل کر دشمن حملوں کو برسوں سہتی ہے۔ جنگ رُک جانے کے باوجود جاری رہتی ہے۔لوگوں کا اور حکومتوں کا طرز عمل بدل جاتا ہے، جو تھوڑی بہت ہمدردی تھی وہ چشم پوشی میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ غزہ کی تعمیر نو کیلئے چالیس ارب ڈالر کے برابر رقم درکار ہے۔ کتنی حکومتوں نے خود کو پیش کیا کہ اس تعمیر نو میں ہم حصہ لیں گے اور کوشش کرینگے کہ اہل غزہ کو از سرنو زندگی جینے کا حوصلہ ملے؟ جنگ، جنگبندی کے باوجود شاید ہی رکے۔ یہ بات اسلئے کہی جارہی ہے کہ معاہدہ جنگبندی کا ہوا ہے، اس بات کا نہیں ہوا کہ اسرائیل اپنی شیطنت بھی بند کریگا۔