ٹرمپ کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی از سرنو صدارت سنبھالے ہوئے ابھی چوبیس پچیس دن سے زیادہ دن نہیں ہوئے مگر اس قلیل مدت میں انہوں نے بہت کچھ تہ و بالا کردیا ہے۔ ٹیرف بڑھانے کی اتنی دھمکیاں اُنہوں نے دے دی ہیں کہ انتباہی دائرہ میں آنے والا ہر ملک پریشان اور فکرمند ہے۔
ٹرمپ کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی از سرنو صدارت سنبھالے ہوئے ابھی چوبیس پچیس دن سے زیادہ دن نہیں ہوئے مگر اس قلیل مدت میں انہوں نے بہت کچھ تہ و بالا کردیا ہے۔ ٹیرف بڑھانے کی اتنی دھمکیاں اُنہوں نے دے دی ہیں کہ انتباہی دائرہ میں آنے والا ہر ملک پریشان اور فکرمند ہے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا مسئلہ ہے مگر وہ ٹرمپ ہی کیا جو ایک ہی محاذ کھولے۔ اُنہوں نے چھوٹے چھوٹے کئی اور محاذ کھول رکھے ہیں ۔ امریکی صدارتی دوڑ میں ٹرمپ سے ہار جانے والی ہندوستانی نژاد کملا ہیرس نے انتخابی دور ہی میں کہا تھا کہ ٹرمپ نے ’’دشمنوں کی فہرست ہے‘‘ بنا رکھی ہے جن پر وہ مقدمہ چلوانا چاہتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر فل کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’بسا اوقات بدلہ یا انتقام جائز (جسٹیفائڈ) ہوتا ہے۔‘‘ وہ سیاسی حریفوں کو بھی دشمن سمجھتے ہیں اس لئے یہ فہرست طویل ہے۔
اِس میں شامل ناموں میں سے ایک جیک اسمتھ کا ہے جو بطور خصوصی وکیل، ٹرمپ کے خلاف مقدموں میں استغاثہ کی قیادت کررہے تھے۔ اُن کی بابت صدر موصوف کی رائے کیا ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ’’اُنہیں ذہنی دیوالیہ تصور کرتے ہوئے، ملک سے باہر پھینک دینا چاہئے۔‘‘
اسی طرح لز چینی جنہوں نے صدارتی الیکشن میں کملا ہیرس کے نام کی تو ثیق کی تھی اور وسکونسن کی سابق قانون ساز ہیں ، کے بارے میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ لز (چینی) کو جیل بھیج دینا چاہئے۔ وہ اپنی برہمی، مخالفت یا الگ نقطۂ نظر کے اظہار کیلئے الفاظ کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتے۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ جس کے خلاف لب کشائی کررہے ہیں وہ کوئی خاتون ہے جس کا احترام کیا جانا چاہئے۔
ٹرمپ کی ہٹ لسٹ کو ہیٹ لسٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ وہ تحریری شکل میں موجود نہیں ہے تو تقریروں کی بنیاد پر تیار کی جاسکتی ہے۔ ایسی کوئی بھی لسٹ سابق اسپیکر نینسی پیلوسی کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سیاسی مخالفین سے کد رکھنا عام بات ہے مگر ٹرمپ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ نہ تو بحیثیت خاتون نینسی کے ساتھ رعایت کرتے ہیں نہ ہی سابق اسپیکر کی اُن کی حیثیت کو عزت بخشتے ہیں ۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ نینسی نے اُن کے مواخذہ کے دوران بہت گڑبڑ کی ہے، اُن پر مقدمہ چلنا چاہئے۔ عجب نہیں کہ وہ مقدمہ چلوا بھی دیں ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی فہرست میں چند ایسے نام بھی ہیں جن کی الگ فہرست بن سکتی ہے۔ جیسے ایک نام انٹیلی جنس پروفیشنلس کا ہے جن کی مجموعی تعداد ۵۱؍ ہے۔ یہی نہیں ، ایک نام ممبرس آف ۶؍ جنوری سلیکٹ کمیٹی ہے جس کے ذیل میں کئی نام آتے ہیں ۔ یہ کمیٹی ۶؍ جنوری ۲۰۲۱ء کو کیپٹل ہل پر ہونے والے حملے کی تفتیش سے متعلق بنائی گئی تھی۔
کیا ٹرمپ ایسے تمام بااثر افراد کے خلاف کارروائی کرینگے؟ اگر کی تو اس کا مقصد کیا ہوگا؟ کیا ان تمام کو، مستقبل میں کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے سے باز رکھنا ہے؟ کیا ایسا ماحول بنانا مقصود ہے جس میں کسی بھی ٹرمپ مخالف کارروائی یا اقدام سے پہلے مدعی کو دس مرتبہ سوچا پڑے؟ یہ ہم نہیں جانتے مگر ٹرمپ کا اپنا مزاج اور اسٹائل ہے۔ وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ بولیں تو زبان پر قابو نہیں رکھ سکتے اور کچھ کریں تو اُس کو غیر متنازع رکھنے کی ضمانت نہیں دے سکتے اور ابھی تو ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا، دیکھتے رہئے اُن کی دھماچوکڑی دیکھنے لائق ہوگی۔