ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دیتے وقت امریکی عوام نے کیا سوچا تھا یہ کہنا مشکل ہے۔ مبصرین نے جو اسباب بیان کئے اُن میں تارکین وطن کی امریکہ میں موجودگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔اس کی تو ثیق بھی ہوتی ہے ۔
EPAPER
Updated: April 04, 2025, 1:22 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دیتے وقت امریکی عوام نے کیا سوچا تھا یہ کہنا مشکل ہے۔ مبصرین نے جو اسباب بیان کئے اُن میں تارکین وطن کی امریکہ میں موجودگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔اس کی تو ثیق بھی ہوتی ہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دیتے وقت امریکی عوام نے کیا سوچا تھا یہ کہنا مشکل ہے۔ مبصرین نے جو اسباب بیان کئے اُن میں تارکین وطن کی امریکہ میں موجودگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔اس کی تو ثیق بھی ہوتی ہے ۔ وہ اس طرح کہ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی ماحول سازی شروع کردی تھی کہ وہ جلد ہی غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن کو نکال باہر کریں گے۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے اپنے وعدہ پر عمل کیا۔ اب وہ اُس محاذ پر خاموش ہیں ۔ کیا اس وجہ سے کہ وہ تمام تارکین وطن کو بے دخل کرکے کوئی بڑا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے؟ خطرہ ان معنوں میں کہ اُن کے ہاں بہت سے شعبوں میں افرادی قوت غیر معمولی طور پر کم نہ ہوجائے۔ جو بھی وجہ ہو، تارکین وطن کے خلاف اُن کی بیان بازی کم ہوگئی ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم رہنے والوں کے خلاف کارروائی تو ہونی ہی چاہئے مگر خوف پھیلانے کی کوشش ٹھیک نہیں ۔ ٹرمپ کے بیانات سے اُن لوگوں میں بھی خوف پیدا ہورہا تھا جو قانونی طور پر رہتے ہیں ، مخالف ماحول اُنہیں ڈرانے لگا تھا۔ خیر، اب جنابِ ٹرمپ کی بیان بازی ٹیریف کی بابت ہے۔ کل تک وہ تارکین وطن کو ڈرا رہے تھے، اب الگ الگ ملکوں کو ڈرا رہے ہیں تاکہ اُن کے خلاف اچھا خاصا طومار باندھ کر اُنہیں ’’راہِ راست‘‘ پر لے آئیں اور پھراُن سے تجارتی تعلقات اپنی شرطوں پر استوار کریں ۔ یہ عمل اُس دکاندار کے عمل جیسا ہے جو بھاؤ تاؤ کرنے والے گاہک کو فوراً تاڑ جاتا ہے اور فروخت کیلئے رکھی گئی اشیاء کے دام کافی بڑھا کر بتاتا ہے تاکہ گاہک جتنا بھاؤ تاؤ کرنا چاہتا ہےکرلے، وہ جس قیمت پر بھی خریدے گا اُس میں اُس کا منافع بہرقیمت رہے گا۔ ٹرمپ، ٹیریف گھٹائیں گے مگرابھی نہیں ۔ اس کے پہلے وہ چاہتے ہیں کہ اُن تمام ممالک کو، جن سے امریکہ کے تجارتی تعلقات ہیں ، ’’گھٹنوں پر‘‘ لےآئیں ، اُس کے بعد گفت و شنید سے درمیانی راستہ نکالا جائے۔ اسے ایک طرح کی گیدڑ بھپکی کہہ سکتے ہیں ۔
مگر اس کی وجہ سے عالمی بازار میں زبردست اُتھل پتھل مچ گئی۔ عالمی شیئر بازار کو شدید جھٹکے لگے، سرمایہ کاروں میں ہیجان برپا ہوگیا، معاشیات پر نگاہ رکھنے والے متفکر ہوئے کہ اس کی وجہ سے معاشی مندی پھیل جائیگی جس کا سنبھلنا بہت مشکل ہوجائے گا، بعض تاجروں نے عالمی لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ ٹرمپ سے بات کریں اور اُنہیں سمجھائیں کہ ایسا غیظ و غضب ٹھیک نہیں ، فرانسیسی صدر نے فرنچ کمپنیوں سے کہہ دیا کہ وہ امریکہ میں سرمایہ کاری سے رُک جائیں ، وغیرہ۔ بطور ِ ردعمل یہ جو کچھ بھی ہورہا ہےٹرمپ کو اس کا اندازہ نہ رہا ہو، ایسا نہیں ہوسکتا۔ وہ خوب جانتے ہوں گے کہ کس کی طرف سے کیا جواب آئے گا یا کون کتنا بدحواس ہوگا مگر اس سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ یہی چاہتے تھے۔شہ زور، کم وقت میں اپنی شہ زوری کی دھاک جمانے کیلئے ایسا ہی کرتا ہے۔ اُن کے نزدیک ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ بیرونی ممالک امریکہ سے اپنے تجارتی تعلقات میں امریکی شرائط کو ملحوظ رکھیں اور اُنہیں پورا کریں ۔ ٹرمپ دُنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک کو دیگر ملکوں کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی دیگر ملکوں کو امریکہ کی، مگر، یہ اُن کی خام خیالی ہے، تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، یہ ممکن نہیں کہ ایک ہاتھ زیادہ زور لگائے اور دوسرا کم، پھر بھی تالی کی آواز ویسی ہی رہے۔