• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ٹرمپ کی واپسی اور خود اعتمادی

Updated: January 17, 2025, 1:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری میں اب محض چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ اس بار جب وہ صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالیں گے تو پہلے سے زیادہ خوداعتمادی کے ساتھ واپسی کی نظیر قائم کرینگے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری میں  اب محض چند روز باقی رہ گئے ہیں ۔ اس بار جب وہ صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالیں  گے تو پہلے سے زیادہ خوداعتمادی کے ساتھ واپسی کی نظیر قائم کرینگے۔ اِس خود اعتمادی کی وجہ وہ حمایت ہے جو صدارتی انتخاب میں اُنہیں  حاصل ہوئی۔ یہ اتنی غیر معمولی حمایت تھی کہ بہتوں  کو انتخابی نتائج پر یقین نہیں  آیا مگر جب یہ معلوم ہوا کہ نتائج اس قدر ٹرمپ کے حق میں  کیوں  ہیں  تو کئی تعجب خیز انکشافات ہوئے، مثال کے طور پر یہ انکشاف کہ وہ میکسیکو سے آنے والے جن تارکین وطن کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں  اُن میں  بہت سوں  کی پہلی پسند ٹرمپ ہی تھے۔ اسی طرح خطۂ عرب کے وہ باشندے جو امریکہ میں  مقیم ہیں ، اُنہیں  غزہ جنگ کی وجہ سے تشویش میں  مبتلا ہونا چاہئے تھا کہ سخت گیر اور شدت پسند ٹرمپ نے اقتدار سنبھال لیا تو غزہ کی آگ مزید پھیل سکتی ہے مگر اُنہو ں نے بھی ٹرمپ ہی کو ووٹ دیا۔
 مذکورہ باتیں  ہرچند کہ نسبتاً پُرانی ہوچکی ہیں  مگر ان کا اعادہ ضروری تھا کیونکہ ٹرمپ پہلی مرتبہ صدر بنے تھے تو جگہ جگہ مظاہرے ہورہے تھے کہ ’’یہ ہمارے صدر نہیں  ہیں ‘‘ مگر اِس بار وہ ایک ایسے صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالیں  گے جسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے اُن میں  غضب کا اعتماد پیدا ہوا ہے جس کا مظاہرہ اُن کے بعض فیصلوں  اور بیانوں  میں  دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر غزہ کی جنگبندی کا معاملہ۔ بائیڈن کی ٹیم اس کا سہرا پیش رو صدر کے سر باندھنے کی حتی الامکان کوشش کررہی ہے مگر خواہی نخواہی اس کا کریڈٹ ٹرمپ کو مل رہا ہے جنہوں  نے بھلے ہی حماس کو متنبہ کیا تھا کہ اگر جنگ نہ روکی گئی تو غزہ کو جہنم زار بنادیا جائیگا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُنہوں  نے اسرائیل پر بھی کافی دباؤ ڈالا اور اگر ہماری اطلاع درست ہے تو انہو ں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو بُرا بھلا بھی کہا۔ اس سے لگتا ہے کہ ٹرمپ نہیں  چاہتے تھے کہ ۲۰؍ جنوری کو جب اُن کی تاجپوشی ہو تب غزہ میں  جنگ چل رہی ہو۔اُن کے پُراعتماد فیصلوں  میں  اور بھی کئی ہیں ۔ مثال کے طور پر اُنہوں  نے چین کے صدر کو تقریب ِ حلف برداری میں  شرکت کی دعوت دی۔ اس دعوت کو خلاف ِ معمول بتایا جارہا ہے جس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید اب تک کی تاریخ میں  کبھی ایسا نہیں  ہوا کہ کسی نو منتخب صدر نے اپنی حلف برداری کیلئے چین کے سربراہ کو دعوت دی ہو۔ ٹرمپ نے کچھ ایسے فیصلے بھی کئے جن پر حیرت سے زیادہ افسوس ہے۔ مثال کے طور پر اُنہوں  نے وزیر اعظم مودی کو مدعو نہیں  کیا۔ اس کی بہت سی وجوہات سمجھ میں  آتی ہیں  مگر ایک ایسی تقریب جس میں  دُنیا بھر کی مقتدر شخصیات کو بلایا گیا ہو وہاں  اُنہوں  نے پہلے صدارتی دَور کے اپنے قریبی دوست کا کوئی لحاظ نہیں  کیا۔ ہرچند کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو مدعو کیا گیا ہے مگر وزیر اعظم مودی کا مدعو نہ کیا جانا ناگوار گزرنے والا ہے۔ چین سے آپ کو بیر اور کد ہے جبکہ مودی سے آپ کی دوستی تھی، پھر یہ کیا غیر منطقی فیصلہ ہے کہ آپ شی جن پنگ کو تو بلا رہے ہیں  مگر نریندر مودی کو نظر انداز کررہے ہیں ۔ دُنیا کی سب سے بڑی آبادی اور سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ ٹرمپ کا یہ انداز ِ تحقیر اعلیٰ سفارتی قدروں  کے خلاف تو ہے ہی، اخلاقی قدروں  کے بھی منافی ہے۔ ایسے میں  ہم سوچ رہے ہیں  کہ اسی سال کویڈ کی چوٹی کانفرنس میں  شرکت کیلئے ٹرمپ آئینگے تو مودی سے کس منہ سے ملیں  گے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK