آج کے دورِ انتشار میں سوچا جاسکتا ہے کہ پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر لگی کونسل کے نام کی تختی کا معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس کیلئے کلکٹر کے دفتر سے کمشنر کے دفتر تک اور پھر ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک کا سفر طے کیا جاتا اور ہر جگہ اُردو کے دفاع کی کوشش کی جاتی مگر آفرین ہے پاتور کے اُن لوگوں پر جنہوں نے یہ لڑائی لڑی۔
آج کے دورِ انتشار میں سوچا جاسکتا ہے کہ پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر لگی کونسل کے نام کی تختی کا معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس کیلئے کلکٹر کے دفتر سے کمشنر کے دفتر تک اور پھر ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک کا سفر طے کیا جاتا اور ہر جگہ اُردو کے دفاع کی کوشش کی جاتی مگر آفرین ہے پاتور کے اُن لوگوں پر جنہوں نے یہ لڑائی لڑی۔ آفرین ہے سپریم کورٹ پر جس نے اُردو کی تاریخی حیثیت اور اس کی ہندوستانی شہریت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ سوچئے نام کی تختی کو اِتنی اہمیت کیوں دی گئی؟ اس لئے کہ زبان کو بچانا مقصود تھا۔ یہ تختی اُتر جاتی یااس پر سے اُردو ہٹ جاتی تو ایسی ہزارہا تختیوں کی خیر نہیں تھی۔ اہل پاتور نے کتنا بڑا کام کیا ہے اور آج کے مشکل حالات میں اُردو کے تحفظ کیلئے کیسی قربانی دی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ محض خوش ہونا، کہ سپریم کورٹ نے اُردو کی تاریخی حیثیت کو تسلیم کرکے اُردو کے مخالفین کو نچلا بیٹھنے پر مجبور کیا ہے، کافی نہیں ۔ مخالفین نچلا نہیں بیٹھتے بالخصوص تب، جب اُنہیں اپنی کسی مہم سے سیاسی فائدہ کی اُمید ہو اس لئے ممکن ہے وہ پھر موقع تلاش کریں اور پھر واویلہ مچائیں ۔
زیر بحث فیصلہ یقیناً آب زر سے لکھنے کے قابل ہے مگر فیصلہ آجانے سے اُردو کے تمام مسائل حل ہوجائیں یہ ممکن نہیں ہے۔اس فیصلے کو عملاً نافذ یا رائج کرنے کے مقصد سے اہل اُردو کو اپنی زبان کے تحفظ اور اسے ایک بار پھر وسیع تر عوامی زبان بنانے کیلئے سرگرمی کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا اور جو شخص جس کسی حیثیت سے اس کارِ خیر کا حصہ بن سکتا ہے، اُسے بننا ہوگا۔
اس کیلئے ویسے تو ایک عام آدمی بھی اہم ہے مگر اُس سے زیادہ اہمیت سماج اور معاشرہ کے اُن لوگوں کی ہے جو با اثر ہیں ، جن سے ہزاروں دوسرے وابستہ ہیں ، جن کے پاس اپنی بات پہنچانے کا منظم اور مؤثر وسیلہ ہے اور سماج اور معاشرہ میں جن کی سنی جاتی ہے۔ اگر یہ لوگ اُردو کے تحفظ اور ترویج کی فکر کریں ، اپنے آس پاس کے لوگوں کو، اپنے ماننے جاننے والوں کو اور اپنے دائرۂ اثر سے وابستہ افراد کو اُردو زبان اپنانے اور اگر مادری زبان ہے تو بحیثیت مادری زبان اس کا حق ادا کرنے کی تلقین کریں تو بھلے ہی موجودہ حالات میں ضروری باتیں بھی دیر سے اثر کرتی ہوں ، اُن کی تلقین ذہن و دل کے کسی گوشے میں یقیناً محفوظ رہے گی اور عمل کی ترغیب دیگی۔ یہی طرزِ عمل دیگر ہندوستانی زبانوں کے تعلق سے بھی اپنایا جانا چاہئے۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ ہندوستانی زبانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کررہے ہیں اور نہیں جانتے کہ کسی بھی زبان کے خلاف بہت بڑا چیلنج بن کر اُبھر رہی ہے انگریزی زبان جسے باقاعدہ مشن کے طور پر پھیلایا اور ’’نافذ‘‘ کیا جارہا ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ غیر محسوس طریقے سے انگریزی کا فیشن چلانا بھی اسی مشن کا حصہ ہے چنانچہ اس سے تمام زبانوں کو خطرہ لاحق ہے۔ہم سب کو، یعنی تمام ہندوستانی زبانوں کے جاننے اور پڑھنے لکھنے والوں کو متحد ہوکر انگریزی کی یلغار کا اس عزم کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا کہ ہم انگریزوں سے زیادہ اچھی انگریزی سیکھیں گے مگر اپنی زبانوں کی قیمت پر نہیں ۔ عام لوگوں کو یہ نکتہ سمجھانے کیلئے سماج اور معاشرہ کی با اثر شخصیات بہت اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے اپنا فرض نبھایا، اب ہمیں اپنا فرض نبھانے کی ضرورت ہے۔