علامہ اقبال نے کہا تھا عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ علامہ ہی سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے جنت اور جہنم بننے کا انحصار تربیت پر بھی ہے۔ انسان کی تربیت صالح بنیادوں پر ہو تو زندگی جنت کا نمونہ بنتی ہے ورنہ جہنم کی مثال
EPAPER
Updated: January 19, 2025, 3:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
علامہ اقبال نے کہا تھا عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ علامہ ہی سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے جنت اور جہنم بننے کا انحصار تربیت پر بھی ہے۔ انسان کی تربیت صالح بنیادوں پر ہو تو زندگی جنت کا نمونہ بنتی ہے ورنہ جہنم کی مثال
علامہ اقبال نے کہا تھا عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ علامہ ہی سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے جنت اور جہنم بننے کا انحصار تربیت پر بھی ہے۔ انسان کی تربیت صالح بنیادوں پر ہو تو زندگی جنت کا نمونہ بنتی ہے ورنہ جہنم کی مثال۔افسوس کہ جہاں جہاں تک تعلیم کی روشنی پہنچی ہے وہاں وہاں تربیت کا اُجالا نہیں پھیلا۔ تعلیم کو تربیت کا نعم البدل سمجھ لینا بلب کی روشی کو آنکھوں کی بینائی سمجھ لینے جیسا ہے۔ ایک نہیں دس بلب روشن کردیئے جائیں بلکہ درجنوں رنگ برنگی بلب خوبصورت ماحول پیش کرنے لگیں مگر آنکھیں روشن نہ ہوں تو قمقموں کی یہ روشنی اور یہ خوبصورت ماحول بے معنی قرار پائے گا۔اکثر لوگ بھول جاتے ہیں کہ تعلیم کو کارگر اور نافع بنانے میں تربیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تربیت وہ زرخیز مٹی ہے جو تعلیم کے بیج کو بارآور بناتی ہے۔ مغرب سے لاکھ اختلاف کیا جائے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں تعلیم سے پہلے تربیت کا سلسلہ دراز کیا جاتا ہے۔ طفل مکتب، طفل مکتب بننے سے پہلے طفل مکان و طفل خاندان ہوتا ہے جہاں اُسے بہت سی قدروں سے روشناس کیا جاتا ہے، اُٹھنے بیٹھنے، سننے بولنے، کھانے پینے اور دوسروں سے پیش آنے کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔ مغرب ہی میں یہ ہوا کہ ’’والدین بننے کے بعد کیا کریں ‘‘ یا ’’اچھے والدین کیسے بنیں ؟‘‘ یعنی آرٹ آف پیرنٹنگ پر تقریریں ہوئیں ، کتابیں لکھی گئیں اور بحث و مباحثہ ہوا۔ اس کے بعد ہندوستان میں یہ موضوع، موضوع بنا ورنہ اس سے پہلے ہم غافل تھے اور اچھے والدین بننے پر کسی نہ توجہ نہیں دی۔
ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کی اولین درس گاہ ہوتی ہے مگر کیا گود میں پلنے والے بچے کو وہ باتیں سکھائی جاتی ہیں جو گود کو درس گاہ کا منصب عطا کرسکے؟ خطا معاف ہمیں تو یہ تک کہنے میں باک نہیں کہ اگر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین کی ہے تو اس سے قبل کہ وہ بچوں کی تربیت کے مرحلے تک آئیں ، خود اُن کی تربیت ہونی چاہئے۔اس لئے کہ صاحب ِ اولاد ہونا تو نعمت ِ خداوندی ہے مگر خدا کی نعمت کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہے یہ بہت اہم ہے۔ آپ اُن والدین کو کیا کہیں گے جنہیں تربیت کا تھوڑا بہت علم ہے تب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ بچہ اسکول جائیگا تو سب سیکھ لے گا۔ کیا اسکول سے اُس تربیت کی اُمید کی جاسکتی ہے جو گھٹی میں پڑتی ہے اور بچہ گھٹنوں کے بل چلنے سے لے کر اسکول میں داخل ہونے تک ماحول سے اخذ کرتا ہے، اپنے ماں باپ سے اور اپنے دیگر بڑوں سے حاصل کرتا ہے؟
تربیت اچھی ہے تو تعلیم گل کھلاتی ہے، اچھی نہیں ہے یا بالکل نہیں ہوئی ہے تو تعلیم کے بے فیض ہونے کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔گھر کی تربیت نہ ہو تو بچہ اسکول جاکر کبھی نہیں سیکھ سکتا کہ بڑوں کا ادب کیا جاتا ہے اس لئے اساتذہ کا ادب کرنا چاہئے اور بڑوں کا کہا مانا جاتا ہے اسلئے اساتذہ کا کہا ماننا چاہئے۔ اگربہت سے اسکولی طلبہ اساتذہ کا کہا نہیں مانتے ہیں تو اس میں اساتذہ کا قصور نہیں گھر کی تربیت کا قصور ہے۔ کاش معاشرہ کے وہ تمام والدین جن کے بچے ابھی چھوٹے ہیں ، پیرنٹنگ کا فن سیکھیں کہ کس طرح بچوں کے سامنے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، اُن کے سامنے کسی کو بُرا بھلا نہیں کہنا چاہئے اور اپنے بچے کی غلطی ہے تو دوسروں کے بچوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ والدین کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ تربیت گھر پر ہوتی ہے اور تعلیم اسکول میں ۔ دونوں کا اپنا اپنا مقام اور مرتبہ ہے۔