کیا سنبھل کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہو گی اور اس سے سچ برآمد ہوسکے گا کہ کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا اور اس کے ذریعہ کیا حاصل کرنا مقصود تھا؟ ہم نہیں سمجھتے کہ ایسا ہوگا۔
EPAPER
Updated: November 29, 2024, 1:35 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کیا سنبھل کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہو گی اور اس سے سچ برآمد ہوسکے گا کہ کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا اور اس کے ذریعہ کیا حاصل کرنا مقصود تھا؟ ہم نہیں سمجھتے کہ ایسا ہوگا۔
کیا سنبھل کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہو گی اور اس سے سچ برآمد ہوسکے گا کہ کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا اور اس کے ذریعہ کیا حاصل کرنا مقصود تھا؟ ہم نہیں سمجھتے کہ ایسا ہوگا۔ اب تو تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کی روایت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔اس کے بجائے تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ منظم تھا، ایک سازش کے تحت ہوا اور اس کیلئے ایک فرقہ کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ماضی میں کسی علاقے میں فساد ہوجائے تو وزیر داخلہ کا بیان جاری ہوتا تھا۔ امن کمیٹیاں بنائی جاتی تھیں ۔ افواہوں سے بچنے اور تشدد سے باز رہنے کی اپیل کی جاتی تھی۔ عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش ہوتی تھی کیونکہ امن و امان قائم رکھنا بنیادی مقصد ہوا کرتا تھا۔ اب امن و امان کو انتظامیہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جو کرے وہی امن و امان کیلئے بہتر ہوگا۔ ریاستی انتظامیہ جو کچھ کرتا ہے اس ’’یقین‘‘ کے تحت کرتا ہے کہ یہی درست ہے، یہی قانونی ہے اور امن و امان قائم رکھنے کیلئے اس سے بہتر کوئی قدم نہیں ہوسکتا۔ بعد میں عدالت سرزنش کرے، سرزنش نرم الفاظ میں ہو یا سخت الفاظ میں ، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دہلی فسادات کے وقت دیکھا گیا کہ کس طرح کی نعرہ بازی کی گئی، کس نے کی اور اس کا کیا مقصد تھا مگر اس سلسلے میں آج تک نعرہ بازوں کی گرفتاری نہیں ہوئی۔ گزشتہ دنوں سنبھل میں جو پتھراؤ ہوا، وہ بالکل ٹھیک نہیں تھا، قابل مذمت تھا، جو بھی (شخص) قانون اپنے ہاتھ میں لے، وہ غلطی پر ہوگا اور قابل سزا قرار پائیگا۔ اس کی تائید نہیں کی جاسکتی مگر، تفتیش ہو تو یہ بھید بھی کھلے کہ کن حالات میں پتھراؤ ہوا۔ خدا کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے ’’بلڈوزر انصاف‘‘ کی سختی سے حوصلہ شکنی کی ورنہ اب تک تو سنبھل میں بلڈوزر بھی چل چکا ہوتا اور کئی خاندان سر چھپانے کی جگہ تک سے محروم ہوچکے ہوتے!
یہ بھی پڑھئے: مشین ہے یا معمہ؟
مگر، بلڈوزر نہیں تو کیا کچھ بھی نہیں ہوگا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ چنانچہ سنا جارہا ہے بلکہ بعض اخبارات میں سنبھل کے ایس پی کرشنا کمار کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ’’ہم چند ملزمین کی پاسپورٹ سائز تصویریں ڈیولپ کررہے ہیں جنہیں (عوام میں ) تقسیم کیا جائیگا۔‘‘ ایس پی کے بیان میں تصویریں تقسیم کرنے کا منصوبہ بتایا گیا ہے جبکہ اخباری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے، جیسا کہ ٹیلیگراف (۲۸؍ نومبر) صفحہ اول کی خبر میں لکھا ہے کہ ریاستی انتظامیہ اُن ۲۷؍ ملزمین کی تصویرو ں کا پوسٹر بناکر اُنہیں چسپاں (یا، آویزاں ) کریگا جنہیں ۲۴؍ نومبر کے تشدد کیلئے تلاش کیا جارہا ہے۔ یہ بھی سپریم کورٹ کے اُس حکم کی روح کے منافی ہے جس کے ذریعہ عدالت نے یوپی سرکار سے اُس وقت لگائے گئے پوسٹر ہٹوائے تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چار سال پہلے، سی اے اے کیخلاف جاری احتجاج کے دوران جن لوگوں پر الزام تھا، اُن کی تصویروں کے پوسٹر تیار کئے گئے تھے اور اُنہیں جگہ جگہ لگایا گیا تھا۔
لکھنؤ میں وزارت داخلہ کے ایک افسر نے یہ راز بھی فاش کیا ہے کہ سی سی ٹی وی کی مدد سے سنبھل فساد کے ملزموں کو پہچاننے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ سرکاری املاک کو جو نقصان پہنچا اس کی وصولی کی جائے۔ یہ سب عدالت کو درمیان میں لائے بغیر ہوگا تو یقیناً سرکاری جبر جیسا ہوگا۔ ملزمین کو عدالت میں پیش کیا جائے اور عدالت جو بھی حکم دے اُس پر عمل ہو، جو سب کیلئے قابل قبول ہوگا۔ اصل میں جو چیز بھلائی جارہی ہے، یہ ہے کہ ریاستی حکومت من مانے فیصلوں کو رو بہ عمل لاکر یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ یہ نظم و نسق کی بہتری کیلئے ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔