• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہ کیا تماشا ہے؟

Updated: July 20, 2024, 1:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ٹی وی کی خبریں اور یو ٹیوب کے مباحثے ہوں یا عام لوگوں کی گفتگو، گزشتہ دس گیارہ سال سے یا تو راج نیتی حاوی رہتی ہے یا فلمی ستاروں کی نقل و حرکت، یا تو شیئر بازار کی اُچھل کود غالب رہتی ہے یا کھیل کے مقابلے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ٹی وی کی خبریں  اور یو ٹیوب کے مباحثے ہوں  یا عام لوگوں  کی گفتگو، گزشتہ دس گیارہ سال سے یا تو راج نیتی حاوی رہتی ہے یا فلمی ستاروں  کی نقل و حرکت، یا تو شیئر بازار کی اُچھل کود غالب رہتی ہے یا کھیل کے مقابلے۔ گزشتہ دنوں  ملک کے سب سے مالدار شخص کےبیٹے کی شادی موضوع بحث تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ خبریں  خبروں  جیسی نہیں  رہ گئی ہیں ۔ خبروں  کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ رہی سہی کسر سیاسی رسہ کشی کی جزئیات پوری کردیتی ہیں ۔ کس نے کس کے خلاف کیا کہا؟ کس نے ٹویٹ کیا؟ کس نے ٹویٹ ہٹایا؟ کس کے ٹویٹ پر ہنگامہ مچ گیا اور کمانیں  کھنچ گئیں ؟ اور سوشل میڈیا پر کیا وائرل ہوا؟ اب سے پہلے تک بخار، کھانسی، نزلہ یا اسہال کی شکایت عام ہوتی تھی اور ڈاکٹر کہتا تھا کہ آج کل یہ وائرل ہے۔ لوگ مطلب نہیں  جانتے تھے مگر سمجھ لیتے تھے کہ وائرل یعنی کیا۔ اب وائرل (بیماریوں ) کی کوئی اوقات نہیں  رہ گئی ہے، یہ زمانہ وائرل ویڈیوز کی دھینگا مشتی کا ہے۔ 
 ایسے میں  ملک کے بنیادی مسائل پر گفتگو یا غوروخوض کا کسی کے پاس وقت نہیں  ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بے ڈھنگی ترجیحات کے سبب ایسا لگتا ہے جیسے بنیادی مسائل سب کے سب حل ہوچکے اور اب کہنے سننے، تجزیہ کرنے یا اسباب تلاش کرنے کیلئے کچھ نہیں  ہے جبکہ زمینی مسائل کچھ اور ہیں ۔ ناقص غذائیت یا تغذیہ کی کمی اُتنا ہی بڑا مسئلہ آج بھی ہے جتناکہ کل تھا۔ کہتے ہیں  کہ جی ڈی پی میں  کافی اضافہ ہوا ہے اور مبینہ طور پر ۲۰۱۳ء کے بعد قومی گھریلو پیداوار ۵۰؍ فیصد بڑھ گئی  ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ صورتحال بھی ہمارا منہ چڑا رہی ہے کہ دُنیا کے ایک تہائی بچے، جو تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں ، وطن عزیز ہی میں  ہیں ۔ سیاسی تقریروں  میں  کہا جاتا ہے کہ کون بھینس لے کر بھاگ جائیگا، کون نل کی ٹونٹی چرا لے گا اور کون منگل سوتر چھین لے گا مگر یہ نہیں  بتایا جاتا کہ ۲۰۲۳ء کی یو این رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں  ۷۴؍ فیصد ہندوستانی عوام صحت بخش غذا کے حصول سے محروم  تھے۔ 
 اس کے باوجود جب ’’وشو گرو‘‘ بننے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم خلا میں  محل بنانے والے لوگ ہیں  اور دھنستی ہوئی زمین پر کھڑے ہوکر وشو گرو بننا چاہتے ہیں ۔ یہ دعویٰ زمین پر تو چند منٹ بھی نہیں  ٹھہرتا۔ گزشتہ دنوں  ایوت محل ضلع (مہاراشٹر) کی ایک خبر اس اخبار میں  شائع ہوئی۔ اس میں  بتایا گیا تھا کہ میت کندھے پر اُٹھا کر گاؤں  والوں  کو ندی پار کرنی پڑی کیونکہ ندی پر پُل نہیں  ہے۔ اسی خبر کو پڑھتے وقت ہمارے ذہن میں  سوال آیا تھا کہ سانسد گرام یوجنا اور پردھان منتری آدرش گرام یوجنا کا کیا ہوا؟ اسمارٹ ولیج کتنا اسمارٹ ہوا؟ ایسے سوالات کو بالائے طاق رکھ کر میڈیا کبھی دھرم کی راج نیتی اور کبھی سیاستدانوں  کی رسہ کشی کو موضوع بحث بناتا ہے۔ ارباب اقتدار اسی میں  خوش ہیں ۔ وہ بنیادی سوال کو دھرم کی راج نیتی کی طرف لے جانے میں  ماہر ہوگئے ہیں  اور بھول جاتے ہیں  کہ یہ طرز عمل ملک کے ترقیاتی ایجنڈا کے مفاد میں  نہ تو ہے نہ ہی ہوسکتا ہے۔
 ایک ماہ میں ، بہار میں  بارہ تیرہ پل گر گئے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں  کئی بھیانک  سڑک حادثے ہوئے۔ ٹرینوں  کے حادثات کی خبریں  بھی برابر مل رہی ہیں ۔ اس کے باوجود بہت سوں  کو لایعنی سوالوں  سے دلچسپی ہے مثلاً آسام کے وزیر اعلیٰ کو ڈر ہے کہ آسام مسلم اکثریتی ریاست بن جائیگی۔ ایں  چہ بوالعجبی است! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK