Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

عالمی یوم ِ تحفظ آب

Updated: March 22, 2025, 1:26 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آج یوم تحفظ آب ہے اور اس دِن ہر خاص وعام کو ماہرین کے اس بیان سے متنبہ ہوجانا چاہئے کہ عالمی سطح پر ۲۰۵۰ء تک ۵ء۷؍ ارب لوگ پانی کی قلت کا سامنا کررہے ہونگے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 آج یوم تحفظ آب ہے اور اس دِن ہر خاص وعام کو ماہرین کے اس بیان سے متنبہ ہوجانا چاہئے کہ عالمی سطح پر ۲۰۵۰ء تک ۵ء۷؍ ارب لوگ پانی کی قلت کا سامنا کررہے ہونگے۔ پانی کی قلت کیا ہوتی ہے یہ اُن لوگوں  سے پوچھنا چاہئے جن کے علاقوں  میں  قلت ِ آب مستقل مسئلہ ہے۔ بارش کافی ہو یا ناکافی، گرمی شدید ہو یا شدید تر، ہمارے ملک میں  ایسے کئی علاقے ہیں  جہاں  کے عوام سال کے ہر موسم اور ہر مہینے میں  پانی کو ترستے ہیں ۔ ایسے بھی کئی علاقے ہیں  جنہیں  گھر بیٹھے پانی نصیب نہیں  ہوتا بلکہ دور دراز سے لانا پڑتا ہے۔ یہ مشقت عام طور پر خواتین کو اُٹھانی پڑتی ہے۔وہی خواتین جنہیں  گھر کا چولہا چکی بھی دیکھنا اور سودا سلف بھی لانا ہوتا ہے۔ وہی چھوٹے بڑے ظروف لے کر پانی لانے کیلئے دوڑتی ہیں ۔ اُنہیں  سخت جانفشانی سے پانی حاصل کرتا ہوا دیکھ کر افسوس ہوتا ہے مگر تب تو روح کانپ جاتی ہے جب اُن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے جنہیں  اسکول جانا ہے، پڑھنا لکھنا ہے، وہ بھی اپنی ماؤں  یا گھر کی خواتین کے ساتھ پانی کیلئے دوڑتے رہتے ہیں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہمارے آپ کے اس مشاہدے کی توثیق کرتی ہے جس کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کا سب سے زیادہ اثر خواتین پر پڑتا ہے خواہ وہ پختہ عمر کو پہنچ چکی ہوں  یا ابھی نوعمری کی زندگی گزار رہی ہوں ۔ گھر کے ذمہ دار لڑکوں  کو پانی بھرنے نہیں  بھیجتے، لڑکیوں  کو بھیجتے ہیں ، اسی طرح مرد خود یہ ذمہ داری نہیں  ادا کرتے، گھر کی خواتین کو اس کام پر مامور کرتے ہیں ۔
 دور نہ جاتے ہوئے صرف مہاراشٹر کی مثال بھی سامنے رکھی جاسکتی ہے جس کے کئی شہر وں  اور قصبوں  میں  عوام کو ہفتے میں  صرف ایک دن یا دو دن نل کا پانی یعنی میونسپل واٹر دستیاب ہوتا ہے۔ بقیہ دنوں  میں  وہ کنوؤں  میں  ڈول ڈالتے رہتے ہیں  یا زمین کی تہہ سے پانی حاصل کرنے کیلئے لگائی گئی مشینوں  سے جوجھتے رہتے ہیں ، اس کے باوجود ناکافی مقدار حاصل کرپاتے ہیں ۔ جن شہروں  میں  پانی کی قلت وقتاً فوقتاً سر اُبھارتی ہے وہ آگے چل کر مزید پریشان کن صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں  (خدانخواستہ)۔ کئی رپورٹوں  اور سرویز میں  ایسے شہروں  کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں  ہندوستان کے شہر بھی ہیں  اور دیگر ملکوں  کے بھی۔ یہ سوال تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس سے انکار نہیں  کیا جاسکتا کہ کس شہر کو کتنا بڑا خطرہ لاحق ہے مگر ہمارے نزدیک ایک سوال ایسا بھی ہے جس کا تعلق ہمارے اپنے اختیار سے ہے۔ وہ یہ کہ کس شہر کے لوگ پانی کے استعمال میں  کتنے محتاط، اپنے ذخائر ِآب کی حفاظت کے تئیں  کتنے بیدار اور شہری حکام پر دباؤ ڈالنے کے معاملے میں  کتنے سنجیدہ ہیں ۔ 
 ’’قطرہ قطرہ دریا‘‘ سننے اور کہنے میں  اچھا لگتا ہے، اس پر عمل کتنے لوگ کرتے ہیں  اس کا اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ہم آپ شاید ہی کبھی اپنا جائز ہ لیتے ہوں  کہ ہم کتنا پانی دن بھر میں  استعمال کرتے ہیں  اور کتنا ضائع کردیتے ہیں  یا ضائع ہوتا دیکھ کر خاموش رہتے ہیں ۔ آج عالمی یوم تحفظ آب ہے جو اس بات کی یاد دلانے کیلئے ہے کہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ پانی کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرے اور اس پر عمل کرے۔کون نہیں  جانتا کہ پانی قیمتی شے ہے اور دور حاضر میں  یہ زیادہ قیمتی اس لئے ہوگئی ہے کہ اس کے ذخائر کم ہوتے جارہے ہیں ، زیر زمین پانی کی سطح کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور بحران بڑھتا ہی جارہا ہے۔چونکہ زمین کی تپش میں  کمی نہیں  آرہی ہے اس لئے پانی کی قلت بڑا خطرہ بنتی جارہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK