چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتیں (مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم اِنٹرپرائزیز، مخفف: ایم ایس ایم ای) ملک کی جی ڈی پی میں ۳۰؍ فیصد کی ذمہ دار ہیں ۔ ان کے ساتھ ہی غیر منظم زمرہ کم و بیش ۴۵؍ فیصد کا شراکت دار ہے۔
EPAPER
Updated: April 30, 2025, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتیں (مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم اِنٹرپرائزیز، مخفف: ایم ایس ایم ای) ملک کی جی ڈی پی میں ۳۰؍ فیصد کی ذمہ دار ہیں ۔ ان کے ساتھ ہی غیر منظم زمرہ کم و بیش ۴۵؍ فیصد کا شراکت دار ہے۔
چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتیں (مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم اِنٹرپرائزیز، مخفف: ایم ایس ایم ای) ملک کی جی ڈی پی میں ۳۰؍ فیصد کی ذمہ دار ہیں ۔ ان کے ساتھ ہی غیر منظم زمرہ کم و بیش ۴۵؍ فیصد کا شراکت دار ہے۔ ان دونوں کی ملی جلی حصہ داری ۷۵؍ فیصد کے قریب ہے۔ اس بنیاد پر دونوں ہی زمروں کو حکومت کی توجہ کا ۷۵؍ فیصد حاصل ہونا چاہئے یعنی حکومت اگر چار معاشی فیصلے کرتی ہے تو اُن میں سے تین مذکورہ دو زمروں کیلئے ہونے چاہئیں مگر باعث افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ کووڈ کے بعد مرکزی حکومت نے ایم ایس ایم ای کو تقویت دینے کیلئے چند اسکیمیں جاری کی تھیں مگر ان کی وجہ سے یہ زمرہ سنبھلتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔ غیر منظم زمرہ کبھی بھی حکومت کی توجہ کا نہیں بنتا۔ کووڈ کے بعد بھی اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ایسے دور میں جب ٹرمپ کی ٹیرف وار کی وجہ سے معاشی مندی کے آثار نمایاں ہیں ، ہم خود کو ہر خطرہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ہوجائیں یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر ہندوستانی کے دل میں اس کی تمنا ہے اور رہتی ہے کہ کوئی خطرہ لاحق نہ ہو مگر کیا زمینی حالات یہ توثیق کرتے ہیں کہ ایسا ہوگا؟ جواب ہے نہیں ۔ یاد کیجئے جب چینی مصنوعات نے ہندوستانی مارکیٹ پر دھاوا بولا تھا تب نہ تو حکومت نے اس کی پروا کی کہ مقامی صنعتیں دم توڑ دیں گی نہ ہی صارفین نے خانہ زاد مصنوعات کو ترجیح دی۔اس کیلئے حکومت زیادہ ذمہ دار ہے کیونکہ ۱۹۹۰ء کی معاشی اصلاحات کے بعد حالات بدلےتھے اور بدلتے ہوئے حالات میں دیسی صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی تھی جو اس نے پوری نہیں کی۔ صارفین کم ذمہ دار ہیں کیونکہ اُنہیں کوئی شے کم قیمت پر بازار میں دستیاب ہوتی ہے تو وہ فطری طور پر اُسی شے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ خریداری کے وقت وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کون سی شے میڈ اِن کہاں کی ہےاگر اُنہوں نے میڈ اِن دیکھ لیا تب بھی میڈ اِن چائنا اور میڈ اِن انڈیا کے درمیان کسی ایک کو چنتے وقت اُن کے ذہن میں یہ تفصیل نہیں ہوتی کہ میڈ اِن انڈیا خریدنے سے، خواہ یہ خریداری نسبتاً مہنگی ہو، دیسی صنعتوں کو فروغ اور استحکام حاصل ہوگا۔ بہرحال، ہوا یہ کہ صارفین میڈ اِن چائنا کی طرف بڑھتےچلے گئے اور چین نے فائدہ اُٹھایا، دیسی صنعتیں متاثر ہوتی چلی گئیں ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ بڑی صنعتوں کو نوازنے کی دھن میں حکومت ایم ایس ایم ای اور غیر منظم زمرہ سے بے اعتنائی کرتی ہے۔ ایسا کہنا اس لئے درست نہیں کہ بڑی صنعتیں بھی ضروری ہیں مگر ان کو نوازنے اور ان کے مفادات کا خیال رکھنے کے ساتھ ہی چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کی مجموعی حصہ داری جی ڈی پی کی ۷۵؍ فیصد کے برابر ہے۔ اِن زمروں کی سفارش کرتے وقت یہ نہیں بھلایا جاسکتا کہ یہ زمرے روزگار کی فراہمی میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں چنانچہ اِن پر عنایتوں کا خاص التزام ہونا چاہئے تھا۔یاد رہنا چاہئے کہ جب بھی معیشت حکومت کے قائم کردہ معیارات پر پورا نہیں اُترے گی، یہی زمرے اس کی مدد کو آئینگے مگر جب اُن کی کمر ٹوٹی ہوئی رہے گی تو ان سے مدد کی اُمید بھی نہیں کی جاسکے گی۔ ٹرمپ کی ٹیرف وار سے پیدا شدہ حالات میں ہمیں ’’دوڑ پیچھے کی طرف‘‘ کے اسلوب کو معاشی پالیسی میں شامل کرنا چاہئے لہٰذا یہ وقت کی ضرورت اور دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ان زمروں کو خاص اہمیت دی جائے۔