ہر سال ۲۴؍ جنوری کو نیشنل گرل چائلڈ ڈے منایا جاتا ہے۔ ہرچند کہ یہ دن کل تھا جو گزر گیا مگر گرل چائلڈ کی فلاح سے متعلق سوالات کو کل اور آج میں قید نہیں کیا جاسکتا وہ کل بھی تھے آج بھی ہیں اور شاید کل بھی رہیں۔
EPAPER
Updated: January 25, 2025, 1:43 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
ہر سال ۲۴؍ جنوری کو نیشنل گرل چائلڈ ڈے منایا جاتا ہے۔ ہرچند کہ یہ دن کل تھا جو گزر گیا مگر گرل چائلڈ کی فلاح سے متعلق سوالات کو کل اور آج میں قید نہیں کیا جاسکتا وہ کل بھی تھے آج بھی ہیں اور شاید کل بھی رہیں۔
ایک افسانہ، جو اس اخبار کے ۲۲؍ جنوری ۲۵ء کے شمارہ میں شامل اشاعت تھا، کچھ اس طرح شروع ہوا: ’’مَیں نے ایک بہت ہی غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، میرا باپ کسی محکمے میں ایک معمولی چپراسی تھا، میری پیدائش پر کوئی خوش نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس گھر میں دو بیٹیاں پہلے سے موجود تھیں ۔ میری پیدائش پر میرا باپ اس قدر ناراض ہوا کہ اس نے میری ماں کی خوب پٹائی کی، بیٹی کی پیدائش کے جرم میں ۔ اس سے دلبرداشتہ ہوکر ماں نے اپنی مار کا بدلہ مجھ سے لیا وہ اس طرح کہ وہ میری طرف سے بالکل لاپروا ہوگئی۔‘‘
ایک اور افسانہ کی یہ چند سطریں ملاحظہ کیجئے: ’’وہ اپنے شوہر کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی، خدا کیلئے مجھے گھر سے مت نکالئے، میں اتنی رات کو کہاں جاؤں گی، آپ جو بھی کہیں گے مَیں کرنے کیلئے تیار ہوں ، چاہیں تو میرا کھانا ایک وقت کا کردیجئے، مَیں اسٹور روم میں رہ لوں گی لیکن مجھ سے میرا آخری ٹھکانہ مت چھینئے، خدا کا واسطہ ہے، کچھ تو رحم کیجئے!‘‘
یہ افسانے اب سے پچاس برس پہلے کے نہیں ہیں ، حالیہ برسوں کے ہیں مگر ان کی قرأت کے دوران یہ خیال بار بار آیا کہ ان میں عورت کے ساتھ جبرو تشدد کی کیفیت تو بالکل و ہی ہے جیسی اب سے پچاس برس پہلے کے افسانوں میں تھی، تو کیا وقت اور حالات بدل جانے کے باوجود عورت آج بھی پچاس سال پہلے کے حالات سے نبردآزما ہے؟ یا، کیا کچھ ایسا ہے کہ اُسے بہتر گھر نصیب ہوا، مالی وسائل فراہم ہوئے، اچھا پہننے اوڑھنے کا موقع ملا مگر اُس سماج کی ذہنیت اب بھی ویسی ہے جیسی پچاس سال پہلے ہوا کرتی تھی؟
یہ سوالات افسانہ کے اندرون سے جھانکتے رہے مگر مَیں یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتا رہا کہ شاید متعلقہ افسانہ نگاروں نے جذباتی کیفیت اُبھارنے کے مقصد سے ان مناظر کو افسانے کا حصہ بنایا ہو۔ مگر ان مناظر پر یقین کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ مشکل اس لئے ہے کہ ممبئی میں کسی ریستوراں کے قریب، کسی مال کی دکانوں پر، کسی باغیچے کے پاس یا بازار میں اکثر ایسے شادی شدہ اور منکوحہ نوجوان جوڑے دکھائی دے جاتے ہیں جو آپس میں بڑے رازدارانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے پر نثار ہیں ، ایک دوسرے کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو کبھی ناراض نہیں کرتے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی ان مناظر کے دکھائی دے جانے پر محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے نوجوان زن و شو َ میں کبھی کبھار بحث و تکرار تو ہوجاتی ہوگی مگر وہ حالات کبھی پیدا نہ ہوتے ہوں گے جو اَب سے نصف صدی پہلے تھے جب عورت کو پیر کی جوتی کہا جاتا تھا۔ یہ مناظر تو اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں ۔ ان کا تجزیہ اسی نتیجے پر منتج ہوگا کہ آج کا شوہر اپنی بیوی کو وہ مقام و مرتبہ دے رہا ہے جو اُس کا حق ہے۔ مگر کیا باہر کی دُنیا کے چند مناظر پر سرسری نگاہ ڈال کر بعجلت تمام کوئی نتیجہ اخذ کرنا درست ہے؟ باہر کی دُنیا اور گھر کی دُنیا میں فرق ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے جو باہر نظر آتا ہے وہ گھر میں نہ ہوتا ہو اور جو گھر میں ہوتا ہو وہ باہر دکھائی نہ دیتا ہو؟ یقیناً ایسا ہوسکتا ہے مگر آج ہی کے لکھے ہوئے افسانوں میں پسندیدگی، جاں نثاری اور احترام کی یہ دوسری کیفیت کیوں نہیں ہے؟ اور آئے دن اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں وہی صورت حال کیوں بیان کرتی ہیں جو اَب سے پچاس برس پہلے تھی؟ اور گھریلو تشدد کے واقعات کیوں کم نہیں ہورہے ہیں ؟ حالیہ برسو ں میں گھریلو تشدد کے واقعات تو ایسے بھی ہوئے ہیں کہ پچاس سال پہلے کے حالات شرما جائیں !
ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت بدلا، حالات بدلے، پیسوں کی فراوانی ہوئی، معیارِ زندگی بہتر ہوا مگر معاشرہ کی سوچ اب بھی ویسی ہے جیسی کہ مرد اساس معاشرہ کی ہوتی تھی۔ ماہرین اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مرد اساس معاشرہ اب بھی موجود ہے، اس میں نہ تو تبدیلی آئی نہ ہی تبدیلی کا امکان روشن ہوا ہے۔
حقیقتاً یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ معاشرہ کیسا ہے؟ اگر مرد اساس ہے تو یہ تاثر کیوں پیدا ہوتا ہے کہ نئے دور میں عورتوں کی زیادہ چلتی ہے؟ اگر زیادہ چلتی ہے تو اُنہیں کم مواقع کیوں ملتے ہیں ؟ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا دورہ کرلیجئے آپ کو لڑکیوں کی تعداد زیادہ نظر آئے گی۔ تعلیمی کارکردگی میں بھی لڑکیاں ہی سبقت لے جاتی ہیں ۔مگر انہیں کم مواقع ملتے ہیں ، وہ دو تین شعبوں کے علاوہ کسی بھی شعبہ میں نہیں پائی جاتیں ۔ اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی شادی ہوجاتی ہے تو کیا شادی کے بعد اُن کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں ؟ یا شادی کے بعد کا منظرنامہ بالکل دوسرا ہوتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو سسرالی عزیز چاہتے ہیں ؟ تو کیا یہ طرز عمل مرد اساس معاشرہ کی غمازی نہیں کرتا؟
یہ بھی پڑھئے: غزہ کی نئی صبح، صبح ِ کاذب تو نہیں؟
یہاں جتنی باتیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں اُن میں موجود سوالات پر غور کیجئے تو سوالات ہی کے اندرون سے کئی نئے سوالات جھانکتے ہوئے دکھائی دینگے اور اگر یہ نہیں تو ہر سوال کے ممکنہ جواب کا منہ چڑاتے ہوئے کئی دوسرے سوال ملیں گے۔ مثلاً اگر لڑکیاں پڑھ رہی ہیں (اور لڑکیاں ہی پڑھ رہی ہیں ) اور اُنہیں ، غلط یا صحیح، کریئر بنانے کا موقع نہیں ملتا تو تعلیم یافتہ لڑکیاں گھروں میں وہ ماحول بنانے میں کیوں ناکام ہیں جو ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے گھرانے کے فرق کو واضح کرسکے؟ گھروں اور اُن کے افراد سے معاشرہ بنتا ہے اور اس بات سے کوئی انکار نہیں کریگا کہ معاشرہ بُری طرح رو بہ زوال ہے، اس لئے یہ سوال کہ کیا تعلیم کی روشنی گھروں تک نہیں پہنچ رہی ہے؟ کیا گھروں تک صرف ڈگریوں کی رسائی ہے؟
یہ سوالات تفصیلی جواب کے متقاضی ہیں مگر جوابات کا متلاشی کون ہے؟ کیا ایسے سوالات معاشرہ کے حساس افراد کے ذہنوں میں اُبھرتے ہیں ؟ جب تک ذہنوں میں سوال نہ پیدا ہوں تب تک جواب کی قدروقیمت تو مشکوک رہے گی۔ مَیں اسکولوں کی بچیوں کو دیکھتا ہوں تو دل کہتا ہے کہ ان کی پیشانی اور آنکھوں کی طرح ان کا مستقبل بھی روشن ہے مگر ذہن کہتا ہے کہ کل تک انہی اسکولوں میں جو بچیاں پڑھ رہی تھیں کیا اُن کا مستقبل یعنی آج روشن ہوا؟تب ہی یہ ستم ظریفی یاد آتی ہے کہ لڑکیاں پڑھتی ہیں مگر انہیں موقع نہیں ملتا، لڑکوں کو موقع ملتا ہے مگر وہ پڑھتے نہیں ہیں ۔ قوم کہاں جائے؟