• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نتیش اور بائیڈن میں عجیب و غریب یکسانیت

Updated: July 09, 2024, 1:24 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

نتیش بہار کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل متحدہ کے سربراہ ہیں جبکہ بائیڈن ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بڑی عجیب بات ہے۔کہاں  پٹنہ میں  بیٹھے ہوئے نتیش کمار اور کہاں  واشنگٹن میں  بیٹھے ہوئے جوبائیڈن۔ دونوں  میں  کوئی رشتہ ناتہ بھی نہیں  ہے، لیکن یہ زندگی بھی عجیب شے ہے۔ یہاں کچھ ایسی ہستیاں  بھی رہتی ہیں  جو بظاہر انوکھی ہوتی ہیں  لیکن قدرت ان میں  یکسانیت پیدا کر دیتی ہے۔پہلےہم جوبائیڈن کی بات کرینگے۔ یہ توبتانے کی ضرورت نہیں  کہ وہ دنیا کی ایک عظیم طاقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ہیں ۔ انہوں  نے پچھلے الیکشن میں ٹرمپ کو شکست دی تھی۔ یہ بھی ہوا کہ اس بار جو بائیڈن اور ٹرمپ ایک دوسرے کے سامنے ہیں  اور ہم جو لکھ رہے ہیں  اس کا واسطہ بھی اسی سے ہے۔ امریکہ میں  یوں  تو صدارتی الیکشن نومبر میں  ہیں ، لیکن وہاں  ایک سسٹم ہوتا ہے، وہاں  دو ہی پارٹیاں  ہیں  ایک ڈیمو کریٹ اور دوسری ریپبلکن۔ الیکشن سے کچھ پہلے یہ دونوں  پارٹیاں  اپنا اپنا صدارتی اُمیدوار طے کر لیتی ہیں ۔ اس بار ڈیمو کریٹ کے امیدوار جوبائیڈن ہیں  اور ریپبلکن کے امیدوار ٹرمپ ہیں ۔
 الیکشن سےکچھ عرصہ پہلے عوام کے سامنے دونوں  امیدواروں  کی بحث ہوتی ہے، اس کا معاملہ بھی عجیب ہوتا ہے، دونوں  امیدوار اخبار نویسوں  کے سامنے یا کسی ٹی وی کیمرے کے سامنے بیٹھتے ہیں ، ہاتھوں  میں  کسی کے پاس کوئی تقریر نہیں  ہو تی، مقابلہ کی شرط یہ ہے کہ جو بھی سوال کیا جائے گاسامنے والا اس کا جواب دے گا۔ بات برجستگی کی ہوتی ہے، ظاہر ہے  اس مباحثہ کا   بڑا حصہ عوام ہوتے ہیں ۔ عوام اسی سوال و جواب کے درمیان اپنا ذہن بناتے ہیں  کہ کس کو منتخب کرینگے۔ اس سال کے الیکشن کیلئے یہ مباحثے شروع ہوچکے ہیں ۔ کچھ دنوں  پہلے جوبائیڈن اور ٹرمپ اکٹھا ہوئے اور دونوں  میں  سوال و جواب ہو نے لگے۔ اس بحث ومباحثہ میں  ایک دوسرے پر کچھ غلط الزامات بھی لگائے جاتے ہیں ،ایسا نہیں  ہے کہ امریکہ میں  اخلاقیات کا گزر نہیں ، مگر، ان کی اخلاقیات اور ہمسایوں  کی اخلاقیات کےپیمانے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکہ کےسابق صدر بل کلنٹن پر جو الزامات لگے ان میں  سے ایک کافی مشہور ہوا۔  یہ بات عوام تک پہنچ گئی تھی کہ ان کے صدر محترم کے کسی سے ناجائز تعلقات ہیں ۔ اِس موضوع پر اُس دَور میں  امریکہ میں  کافی لے دے ہوئی تھی۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہے ، کہا جارہا ہے کہ  ایک فلم اداکارہ سے ٹرمپ کے جنسی تعلقات تھے۔ الزام یہ بھی ہے کہ اداکارہ نے جب ٹرمپ کو بلیک میل کرنا شروع کیا تو ٹرمپ نے کسی نہ کسی طرح اسے لاکھوں  ڈالر دے کر چپ کرادیا ۔یہ بات بہت عجیب بھی ہےلیکن ٹرمپ نے اس کی  پروا نہیں  کی۔ 
 یہ عجیب ان معنوں  میں  ہے کہ مباحثہ کے دوران ٹرمپ، جوبائیڈن سے عجیب وغریب سوال کرتے تھے، لیکن وہاں  موجود اخبارنویس دیکھ رہے تھے کہ جوبائیڈن اس تمام عرصہ میں صرف کچھ ہی سوالوں  کے جواب دے سکے۔ لوگ حیران تھے کہ بائیڈن کافی تھکے ہوئے اور مضمحل دکھائی دے رہے ہیں ۔ٹرمپ کے سوالوں  پر بائیڈن ان کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔ 
 پچھلے کچھ دنوں  میں  جاپان کا شاہی جوڑا واشنگٹن آیا تھا۔  جوبائیڈن نے اس کو ریسیو کیا، لوگ آگے بڑھتے گئے اور اچانک معلوم ہوا کہ جوبائیڈن تو ہیں  ہی نہیں  وہ کافی آگے بڑھ گئے ۔ پھر سیکوریٹی نے انہیں  بتایا کہ شاہی جوڑا تو پیچھے رہ گیا ہے۔ جوبائیڈن پلٹ کر ان کے پاس گئے۔ یہ بات بھی ان کی بھولنے کی عادت کا ثبوت ہے۔ طبی زبان میں  اسے نسیان کا مرض کہا جاتا ہے ۔
  ٹرمپ کے ایک سوال کے جواب میں  جوبائیڈن نے کچھ کہنا چاہا لیکن ان کے منہ سے آواز ہی نہیں  نکلی۔ ڈیموکریٹ سخت پریشان تھے کہ ان کے امیدوار کو کیا ہوگیا ہے۔انہوں  نے صرف تین بار اگر کہا لیکن بات پوری نہیں  کی۔ اس پر ٹرمپ نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں  کہ جوبائیڈن نے کیا کہا ہے اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ انہوں  نے کیا کہا ہے تو شاید وہ بتا نہ پائیں ۔ 
 یہ ایسی بات  ہو گئی کہ جس نے ساری دنیاکو ہلا دیا۔ وہ یہ کہ یوکرین  اور  روس کے خلاف جو جنگ ہورہی ہےاگر وہ (ٹرمپ) صدر ہوتے تو یہ جنگ نہ ہوتی اور اگر وہ صدر بن گئے تو یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔اس جملے نے نہ صرف امریکی عوام کو بلکہ ساری دنیا کو دہلا دیاکیونکہ ایسا ہوا تو صرف امریکہ میں  نہیں  بلکہ ساری یورپ کی سیاست میں  بھونچال آجائے گا۔ اس جنگ میں  ہزارو ں لوگ ہلاک ہوئے ہیں  اور امریکہ کا ایک ٹریلن ڈالر بھی ضائع ہوا ہے۔
 ڈیموکریٹ پریشان ہیں ۔ اُنہیں  محسوس ہورہا ہے کہ بائیڈن صدارتی الیکشن نہیں  جیت پائینگے۔ امید ہے کہ اگلے چند دنوں  میں  اس کی معلومات بھی سامنے آجائے گی۔جوبائیڈن کے بجائے کوئی اور امیدوار ہونا چاہئے، ہوسکتا ہے کہ ڈیموکریٹس اپنی جانب سے کسی اور کو اُمیدوار بنانا چاہیں  کیونکہ اس انٹرویو کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ٹرمپ جوبائیڈن سے ۱۷؍۱۸؍ پوائنٹ آگے ہیں ۔ یہ ڈیموکریٹ کیلئے بڑی تباہ کن خبر ہے ۔ 
 اب بات نتیش کمار کی کرتے ہیں ،یہ اپنے دیش کی بات ہے۔ انہیں  بھی نسیان کاعارضہ ہوگیا ہے، وہ بھی بات کہتے کہتے بھول جاتے ہیں ، خیال رہے کہ پٹنہ کی ایک ریلی میں  ، جس میں  مودی جی بھی موجود تھے، نتیش کمار سیکڑوں  کے بجائے ہزاروں  کہہ گئے اور یہ بھی یاد رہے کہ بنارس میں مودی کا پرچہ ٔ نامزدگی داخل کرتے وقت نتیش کمار کو بولنے نہیں  دیا گیا تھا۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ کہیں  نتیش کمار یہ بھی نہ بھول جائیں کہ وہ مرکزی حکومت کے حامی ہیں ۔ اگر کیس دن ایسا ہوا اور نتیش اس حقیقت کو بھول گئے تو ہندوستانی سیاست میں  بھونچال آجائیگا، خدا نتیش کمار کو عمر ِ طویل عطا فرمائے۔ واشنگٹن کی سیاست سے بائیڈن علاحدہ ہوئے تو کچھ نہیں  ہوگا لیکن نتیش کمار غفلت اور فراموشی کی زد پر رہے تو ہندوستان کی سیاست میں  زلزلہ آجائے گا۔ سنا جارہا ہے کہ مودی جی نتیش کمار کے نسیان یعنی بھولنے کی نئی نئی مگر پریشان کن عادت سے کافی فکر مند ہیں  اور یہ فکرمندی کی بات بھی ہے۔ اس سے حکومت داؤ پر لگ سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK