• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’اگر نہیں ہو مزاح پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا‘‘

Updated: January 18, 2025, 1:42 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

زندہ اور صحتمند رہنے کیلئے ہنسنا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسرے کام۔ مگر کتنے لوگ ہیں جو ہنسنے کی طرح ہنس پاتے ہیں؟ ادبی شہ پاروں سے لطف اندوز ہونے کا تو ذوق ہی ناپید ہورہا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

دسمبر، جنوری اور فروری، ان مہینوں  میں  اسکولوں  اور کالجوں  پر موسم بہار ہوتا ہے۔ غیر نصابی سرگرمیوں  کے چمن زار دامن دل کھینچتے ہیں  اور طالب علموں  کی صلاحیتوں  کا دریا موجزن رہتا ہے۔ تحریری و تقریری مقابلے، ادبی کوئز،  بیت بازی، نظم خوانی اور افسانہ خوانی کے مقابلے، تمثیلی مشاعرے اور ایسی ہی کئی دیگر سرگرمیاں ۔ مَیں  اس نوع کی تقریبات میں  شریک ہوکر یا ان کی تفصیل جان کر مسرور ہوتا ہوں  اور خود کو اپنی زبان کے مستقبل کے بارے میں  خوش گمان رہنے کی تلقین کرتا ہوں ۔ مگر ایک بات بار بار کھلتی ہے۔ وہ کیا ہے اس پر بعد میں  آؤں  گا، پہلے چند باتیں  آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں : 
 وہ قارئین جن کے ذہنوں  میں  گزشتہ صدی کی ساتویں ، آٹھویں  اور نویں  دہائی کی ممبئی کا منظرنامہ محفوظ ہے وہ گواہی دیں  گے کہ انگریزی شامناموں  میں  ایک ٹیبلائڈ اخبار تھا آفٹرنون۔ بہرام کانٹریکٹر نے مڈڈے کو خیرباد کہنے کے بعد اسے جاری کیا تھا۔ بہرام ’’بزی بی‘‘ (Busybee)کے قلمی نام سے روزانہ ایک طنزیہ و مزاحیہ کالم ’’راؤنڈ اینڈ اباؤٹ‘‘ لکھتے تھے جو اخبار کے صفحہ آخر پر شائع ہوتا تھا۔ کالم کیا تھا اخبار کی جان تھا۔ لوگ اخبار خریدنے کے بعد کبھی صفحہ اول پر نگاہ دوڑاتے اور کبھی اس تکلف کو بالائے طاق رکھ کر سیدھے آخر ی صفحہ کا رُخ کرتے اور بزی بی کا کالم پڑھتے۔ ایسے موقعوں  پر مجھے اکثر خواجہ احمد عباس کی یاد آتی۔ ہفت روزہ ’’بلٹز‘‘ میں  شائع ہونے والا اُن کا کالم ’’آزاد قلم‘‘ بھی اتنے ہی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ مگر بزی بی اور عباس صاحب کا موازنہ نہیں  کیا جاسکتا۔ عباس صاحب صحافی اور کالم نگار کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے۔ بڑی قدآور شخصیت تھے۔ افسانہ نگار اور فلم نویس کی حیثیت سے بھی ان کا مرتبہ بلند ہے مگر جہاں  تک طنز و مزاح پر مبنی اخباری کالم کا تعلق ہے، بزی بی کے لاجواب قلم کی ستائش کیلئے لاجواب، لاجواب کئی بار لکھ دیجئے، تب بھی ستائش کا حق ادا نہیں  ہوگا۔ ان کے طنز کی مثال ان کے ایک کالم کے اس خلاصے میں  دیکھی جاسکتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے کس اعلیٰ معیار کا طنز تھا، لکھتے ہیں :
’’مَیں  اپنے بیٹے کو دیکھتا ہوں  کہ گھنٹوں  کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا کچھ نہ کچھ دیکھتا اور پڑھتا رہتا ہے۔ مَیں  نے کئی بار منع کیا کہ یہ حرکت ٹھیک نہیں  مگر نہ جانے کیوں  وہ میری بات پر کان نہیں  دھرتا۔ ایک دن میں  نے جھلا ّ کر کہا کہ کمپیوٹر پر تمہیں  کیا ملتا ہے؟ اس نے کہا کیا نہیں  ملتا۔ مَیں  نے کہا بہتر ہے کتابیں  پڑھو۔ اس نے کہا کتابوں  میں  ایسا کیا ہے جو کمپیوٹر میں  نہیں  ہے۔ مَیں  نے کہا کتابوں  میں  تاریخ ہے، جغرافیہ ہے، ادب ہے۔ اس نے کہا یہ سب کمپیوٹر میں  بھی ہے۔ اس کے ترکی بہ ترکی جواب سے مَیں ، جو جھلایا ہوا تھا، مشتعل ہوگیا اور اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ کتابیں  پڑھو کیونکہ کتابیں  لکھی جارہی ہیں ۔ اُس نے کسی تامل کے بغیر جواب دیا کہ کتابیں  لکھی ہی کیوں  جارہی ہیں  جب پڑھی نہیں  جارہی ہیں ! ‘‘
 پرانی نسل، نئی نسل، کتاب اور جدید ٹیکنالوجی (اُس وقت انٹرنیٹ اتنا عام نہیں  ہوا تھا) کے درمیان تذبذب اور کشمکش کی جس صورت حال کو بزی بی نے طنزو مزاح سے بھرپور مکالموں  کی صورت پیش کیا ہے اُسے آج ہم زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں  جبکہ بزی بی نے یہ کالم اب سے کم و بیش تین دہائی پہلے لکھا تھا۔ چست جملوں  کے ذریعہ مکالموں  میں  بلا کی بے ساختگی پیدا کرنے میں  بزی بی کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ اُنہوں  نے کئی کردار خلق کئے،  مثال کے طور پر ۲۶؍ ویں  منزلہ کا دوست، اُن کے فرزند ڈیرل اور ڈیرک اور اُن کا کتا ّ جسے وہ بولشوئے دی باکسر کہتے تھے۔ 
  طنز و مزاح کی شاندار روایت اُردو زبان کی بھی وراثت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں  ہوسکتا۔ نثری ادب میں  رتن ناتھ سرشار، مرزا فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، رشید احمد صدیقی، کنہیا لال کپور، دلیپ سنگھ، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خان، مجتبیٰ حسین اور یوسف ناظم (مقصد فہرست سازی نہیں ) جیسے درجنوں  قدآور ظرافت نگاروں  نے طنز و مزاح کے وہ گل کھلائے ہیں  جو نہ تو مرجھاسکے ہیں  نہ ہی آئندہ کبھی مرجھا سکیں  گے۔ دیکھا جائے تو یہ فہرست شروع ہی ہوتی ہے مرزا غالب جیسی دیو قامت شخصیت سے جنہوں  نے اپنے مکتوبات میں  جگہ جگہ طنزو مزاح کی ایسی گل کاری کی ہے کہ جملے کے جملے یاد رہ جاتے ہیں ۔ مثلاً ایک جگہ لکھا: 
’’کس ملعون نے بہ سبب ِذوق ِشعر اشعار کی اصلاح منظور رکھی! اگر مَیں  شعر سے بیزار نہ ہوں  تو میرا خدا مجھ سے بیزار، مَیں  نے تو بطریق قہر درویش بر جان درویش لکھا تھا، جیسے اچھی جورو بُرے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیار کرلیتی ہے، میرا تمہارا وہی معاملہ ہے۔‘‘ 
 اُردو کا شعری سرمایہ بھی عظیم شاعروں  کے ناموں  سے مزین ہے، تعجب نہیں  کہ اس فہرست میں  ہمیں  علامہ اقبال (بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق = کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’’بل پیش کیجئے!‘‘) اور جوش ملیح آبادی (کسی کا عہد جوانی میں  پارسا ہونا =  قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی) جیسے نام بھی ملتے ہیں ۔ (یہاں  بھی فہرست سازی مقصود نہیں )۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ اُردو میں  ظرافت نگاری کی پختہ روایت موجود ہے مگر اب ظرافت نگاری کے نام پر یا تو سطحیت ہے یا لطیفہ سنانے جیسا عمل۔ چند ایک ادیب اور شاعر ہیں  جن کا دم غنیمت ہے ورنہ دور دور تک سناٹا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ طنز و مزاح لکھنے کیلئے جتنا علم، تجربہ اور مشاہدہ درکار ہوتا ہے اور زبان و بیان پر جس قدرت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ حالیہ دہائیوں  کے لکھنے والوں  میں  نہیں  ہے؟ اگر ایسا ہے اور اس کی وجہ سے خلاء پیدا ہورہا ہے تو یہ اسکولوں  اور کالجوں  کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ میں  طنز و مزاح کا ذوق و شوق پیدا کریں ، ہونہار طلبہ میں  ادب کا ذوق پیدا کریں ، اُنہیں  معتبر ادباء و شعراء کی تخلیقات فراہم کریں ، اُن سے مطالعہ کیلئے کہیں ، پس از مطالعہ اُن سے گفتگو کریں ، پھر اُن کیلئے مقابلوں  کا انعقاد کریں ، اُن کی ستائش کریں  اور اُنہیں  انعامات سے نوازیں ۔ 
 جہاں  اتنے مقابلے ہوتے ہیں  وہاں  ایک مقابلہ اور سہی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK