تلنگانہ کے ایک گاؤں کے گورنمنٹ اسکول سے جب ایک استاد کو دوسرے اسکول میں ٹرانسفر کیا گیا تو اس کے ۱۳۳؍ طلبہ نے پہلے اسکول کو چھوڑ کر اس اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں وہ ٹرانسفر کئے گئے تھے۔ نیا اسکول ۳؍ کلومیٹر دور ہے۔ استاد سے محبّت نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ واقعی یہ استاد کی مقبولیت اور شاگردوں سے اس کے اچھے رشتے کی دلیل ہے۔
استاد کا درجہ ہر معاشرے میں مسلم ہے۔ ہندو مذہب میں تو استاد کو بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اللہ کی توحید کا اقرار کرنے، اسی کی عبادت کرنے اور اسی سےلو لگانے والے مسلمانوں نے بھی استاد کا ہمیشہ احترام کیا ہے۔ ایک بزرگ کے ملفوظات میں ہے کہ ہر شخص کے تین باپ ہوتے ہیں ایک وہ جو جنم دیتا ہے، دوسرا وہ جو علم دیتا ہے اور تیسرا وہ جو لڑکی دیتا ہے۔ فی زمانہ الگ الگ علم اور الگ الگ درجات میں پڑھانے والے استاد الگ الگ ہوتے ہیں ۔ سب کا احترام لازم ہے۔ استاد صرف کتابیں یا کوئی خاص مضمون پڑھانے والے ہی نہیں ہوتے کوئی فن سکھانے والے بھی استاد ہی ہوتے ہیں ۔ اُردو شاعری میں استادی اور شاگردی کی روایت حال حال تک بہت مستحکم رہی ہے۔ ممبئی میں کالی داس گپتا رضا تھے جنہوں نے صرف شاعری میں اپنے سات استاد ہونے کا اقرار کیا ہے اور ان میں سے کسی کا نام استاذی قبلہ کہے بغیر نہیں لیتے تھے۔ مگر موجودہ نظام تعلیم میں جو انگریزوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے بنایا تھا معلم، متعلم اور نصاب کی اہمیت کو تو تسلیم کیا گیا ہے مگر استاد اور شاگرد کے رشتے پر شاید ہی کوئی توجہ دی گئی ہے اس لئے وقت کے ساتھ اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کا احترام کم ہوتا گیا ہے۔ ایسی صورت میں جب ٹائمر آف انڈیا (ممبئی، ۷؍ جولائی ۲۰۲۴ء) میں یہ خبر پڑھی کہ تلنگانہ کے ایک گاؤں کے گورنمنٹ اسکول سے جب ایک استاد کو دوسرے اسکول میں ٹرانسفر کیا گیا تو اس کے ۱۳۳؍ طلبہ نے پہلے اسکول کو چھوڑ کر اس اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں وہ ٹرانسفر کئے گئے تھے۔ نیا اسکول ۳؍ کلومیٹر دور ہے۔ ایک دو طالب علموں کا معاملہ ہوتا تو سمجھا جاتا کہ یہ دباؤ یا سازش کا معاملہ ہے مگر ۲۵۰؍ طالب علموں میں سے ۱۳۳؍ طالب علموں کا پرانے اسکول کو چھوڑ کر اس اسکول میں داخلہ لے لینا جہاں ان کے استاد کا تبادلہ ہوا تھا کسی سازش یا دباؤ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ واقعی یہ استاد کی مقبولیت اور شاگردوں سے اس کے اچھے رشتے کی دلیل ہے۔
اس پرائمری اسکول میں ۱۲؍ سال پہلے جے سری نواس استاد کی حیثیت سے آئے تھے اس وقت وہاں صرف ۳۲؍ طلبہ تھے لیکن دھیرے دھیرے طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی اور ۲۵۰؍ تک پہنچ گئی۔ طلبہ کو جب معلوم ہوا کہ ان کے محبوب استاد کا تبادلہ کسی دوسرے اسکول میں کر دیا گیا ہے تو پہلے تو انہوں نے اپنے استاد سے عاجزی کی کہ وہ دوسرے اسکول میں نہ جائیں لیکن جب استاد نے یہ کہہ کر اپنی معذوری ظاہر کی کہ آرڈر، آرڈر ہے اور بہرحال اس کی تکمیل ہونا ہے تو انہوں نے اپنے والدین کو مطمئن کرکے اسکول ہی تبدیل کر دیا۔ گاؤں (پوناکل) کے بڑے بوڑھے بھی کے سری نواس کے تبادلہ سے رنجیدہ ہیں مگر خود کے سری نواس پوری انکساری کیساتھ کہتے ہیں کہ مَیں نے تو اپنی صلاحیت کے مطابق پوری محنت اور خلوص سے طلبہ کو پڑھایا ہے۔ ضلع ایجوکیشن افسر نے بھی ان کی تعریف کی ہے۔ استاد کے مرتبے کو پہنچے ہوئے ایک لائق شاگرد کی انکساری و سعادتمندی کا ایک واقعہ میرے ذہن میں بھی ہے۔ احمد آباد میں سمینار تھا، ایک سیشن کی مجلس صدارت میں وہ نام تھے، پروفیسر امیر حسن عابدی اور پروفیسر شریف حسین قاسمی صاحبان کے۔ آنکھوں نے دیکھا اسٹیج پر تنہا امیر حسن عابدی بیٹھے ہوئے ہیں نیچے شریف حسین قاسمی ہیں ۔ کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ قاسمی صاحب، عابدی صاحب کے شاگرد ہیں اسلئے احتراماً ان کیساتھ اسٹیج پر نہیں بیٹھے ہیں ۔ مَیں قاسمی صاحب کے والد محترم سید اخلاق حسین قاسمیؒ کے پاؤں دبا چکا تھا، ان کی میزبانی بھی کرچکا تھا مگر تب تک قاسمی صاحب سے واقف نہیں تھا۔ حیرت ہوئی کہ آج بھی ان جیسی سعادتمند روح موجود ہے ورنہ عام طور سے تو آج کے شاگردوں کا حال یہ ہے کہ وہ سگریٹ کا کش لیکر دھواں استاد کے منہ پر چھوڑتے ہیں ۔
قاسمی صاحب نے اپنی تصنیف ’فارسی شاعری تہذیبی منظرنامہ‘ میں ’کلمات الشعراء‘ کے حوالے سے ایک واقعہ لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے بسااوقات شاگرد اپنے استاد پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے اور یہ صورتحال سب سے زیادہ قابل فخر استاد ہی کیلئے ہوتی ہے۔ یہ ظرف کسی اور کا نہیں ہوتا۔ ایک نشست میں سرخوش نامی شاعر نے کلام سنایا تو ہر طرف سے واہ واہ ہوئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ ہندوستان میں بھی ایک شخص پیدا ہوگیا ہے جو ایسا شعر کہتا ہے۔ دوسرے دن حکیم دانشمند خان کی جو اس نشست میں موجود تھے، سرخوش کے استاد سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے خوب تعریف کی۔ استاد کی تربیت کی بھی داد دی۔ استاد نے سنا تو کہا بزرگ زادگی میں مجھ کو استاد کہہ رہا ہوگا ورنہ مجھ میں اس کی استادی کی صلاحیت کہاں ؟ ہم باہم دوست ہیں ۔ اس کے بعد جب سرخوش استاد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے کیوں کہا کہ میں ’ماہر‘ کا شاگرد ہوں ۔ یہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہے۔ مجھے خود فخر ہے کہ تم جیسا میرا شاگرد ہو۔ استاد ہونے سے انکار کرنے کی وجہ بھی بتائی کہ بعض بلند فکر ایسے بھی ہیں جو مجھے اور میرے کلام کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ایسی صورت میں میرے شاگرد کی ان کی نظر میں کیا قدر و منزلت رہ جائے گی؟
اس کے برعکس ایسے طلبہ اور تلامذہ بھی کافی تعداد میں ہیں جو شاگرد یا کسی خورد کی صلاحیت کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کا بھرم نہ ٹوٹ جائے۔ ابوالکلام قاسمی نے خود مجھ سے کہا کہ آج کے اساتذہ میں سے بیشتر باصلاحیت طلبہ سے بھی گھبراتے ہیں ۔ ہم جیسے لوگ جو کبھی استاد تو کیا اچھے شاگرد بھی نہیں رہے، ان لوگوں کے نشانے پر رہے ہیں جن کی کل متاع ڈھٹائی ہے۔ ایسے لوگ نہ رہیں تو ہم جیسے لوگ ایسا شعر بھی نہ کہہ سکیں کہ؎
ہمہ شناس گنے جا رہے ہیں حرف شناس
ہمارے عہد کی پہچان کم نگاہی ہے
یہ خبر پڑھی تو یقین ہوگیا کہ ابھی اساتذہ کی شفقتوں کا اعتراف اور ان کی صلاحیتوں کا احترام کرنے والے موجود ہیں ۔ کچھ دنوں پہلے بھی خبر آئی تھی کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے چندولی کے ایک مولوی صاحب کا پاؤں چھوا کہ انہوں نے انہیں بچپن میں پڑھایا تھا۔ ممبئی میں ملت نگر کی سنگ بنیاد رکھنے کے لئے ضیاءالدین بخاری مرحوم خود راندیر (سورت) گئے تھے اور اپنے استاد مولانا اجمیری کو مدعو کیا تھا۔ اس جذبے کی تحسین کی ضرورت ہے۔ مَیں ایسے اساتذہ کو جانتا ہوں جو اسکول میں آنے والے طلبہ کے بارے میں اندازہ کر لیتے ہیں کہ ان کے پیٹ میں کچھ ہے یا نہیں ؟ تنقید، تنقیص، الزام تراشی کے سلسلے کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے اور پھر ایسا کرنے والے اپنی ہی قبر کھودتے ہیں ۔ اساتذہ اور اہل علم کی قدر تو باقی ہے اور رہے گی۔ فی زمانہ ایسا ایپ بنانے کی تیاری کی جارہی ہے جو استاد کا نعم البدل ثابت ہو مگر احساس، جذبہ اور درد مندی سے خالی کوئی ایپ ایسا کرسکتا ہے اس میں مجھے شبہ ہے؟