دیدی کیلئے خطرے کی بات یہ ہے کہ بنگال کے عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ لاکھوں خواتین اور بھدر لوگ جو دو دہائیوں سے ان کے وفادار ووٹرز رہے ہیں، ان سے بد ظن ہوچکے ہیں،ترنمول ایم پی سوکھیندو شیکھر رائے نے بغاوت کردی ہےاور خود وزیر اعلیٰ کا بھتیجا ابھیشیک بنرجی روٹھ گیا ہے۔
کلکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں ایک جونیئر ڈاکٹرکے ریپ اور قتل پر اٹھا احتجاج کا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ملک کے کونے کونے میں ڈاکٹرز، طلبہ اور لاکھوں عام لوگ سڑکوں پر اتر کر احتجاج بھی کررہے ہیں اور انصاف کا مطالبہ بھی۔ احتجاج ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر بین الاقوامی جہت اختیار کرگیا۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس، جرمنی، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں ہندوستان کے کسی واقعے پر اتنا شدید ردعمل پہلے کبھی نہیں دیکھا گیاتھا۔
کلکتہ احتجاج اور جلوسوں کا شہر کہلاتا ہے لیکن اس شہر نے بھی غیر سیاسی عوامی احتجاج کا اتنا زبردست اور طویل سلسلہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شہر کی خواتین نے یوم آزادی سے چند گھنٹے قبل آدھی رات کے وقت سڑکوں پر نکل کر جو احتجاج کیاوہ بھی بالکل انوکھا تھا۔ ۲۰۱۲ء میں دہلی کے نربھیا گینگ ریپ کیس کے خلاف بھی بھاری مظاہرے ہوئے تھے تاہم کلکتہ میں جاری احتجاج یقیناً عدیم المثال ہے۔
بنگال میں احتجاج عوامی تحریک میں تبدیل ہوچکاہے۔ اسپتال کے سمینار ہال میں خوابیدہ جونیئر ڈاکٹرکے ساتھ کی گئی درندگی پر لوگوں میں پہلے سے ہی غم و غصہ تھا۔ پولیس، اسپتال انتظامیہ اور ریاستی حکومت نے اتنے گمبھیر معاملے کو ہینڈل کرنے میں غلطی، غفلت اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے انہیں اور برہم کردیا۔ آر جی کار کے پرنسپل اور کلکتہ پولیس نے جس عدم حساسیت اور عدم شفافیت کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد ان اداروں سے اٹھ گیا۔
مقتولہ کے والدین کو اسپتال کے ایک عہدے دار نے فون کرکے کیوں کہا کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کی ہے؟والدین کو تین گھنٹوں کے صبر آزما انتظار کے بعد مہلوکہ کی لاش کیوں دکھائی گئی؟ مقتولہ کا زخموں سے چور جسم نیم برہنہ حالت میں ملا تھا پھر بھی پولیس نے ریپ اور مرڈر کے بجائے ’’ غیر فطری موت‘‘ کا کیس کیوں درج کیا؟ پرنسپل سندیپ گھوش نے جرم کی ایف آئی آر کیوں نہیں درج کرائی؟ پولیس نے گھوش سے پوچھ تاچھ کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا؟ پرنسپل کے استعفے کے بعد انہیں اتنی عجلت میں نیشنل میڈیکل کالج کا پرنسپل کیوں بنادیا گیا جو ایک طرح کا پروموشن تھا؟ریپ اور قتل کے دو دنوں کے اندر سمینار روم کے پاس والے کمرے کو کیوں منہدم کروادیا گیا جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں یہ شک پیدا ہوا کہ جرم کے ثبوت تباہ کئے جارہے ہیں ؟میڈیا اورسوشل میڈیا لگاتار درج بالا سوالات اٹھارہے ہیں اور یہ سوالات پولیس اور ریاستی حکومت کی کارکردگی، نیت اور ساکھ پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں ۔ کلکتہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی پولیس اور حکومت کی نااہلی اور غفلت پر ان کی سرزنش کی۔ ہائی کورٹ کے ذریعہ کیس کی تحقیقات کلکتہ پولیس سے چھین کر سی بی آئی کے حوالے کردینا اور پرنسپل کے تبادلے کو کینسل کرکے انہیں طویل چھٹی پر بھیج دینا بھی ممتا حکومت کے منہ پر لگائے گئے عدالتی طمانچے ہیں ۔ ۱۴؍اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی رات میں احتجاجی ڈاکٹروں اور عام لوگوں پر غنڈوں کے حملے کو نہ روک پانا بھی پولیس کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ پولیس کمشنر ونیت گوئل نے خود بھی پولیس کی ان ناکامیوں کا اعتراف کیا ہے۔ گوئل نے یہ بھی مان لیا ہے کہ کلکتہ پولیس عوام کا اعتبار کھو چکی ہے۔جو کلکتہ پولیس اپنی قابلیت کی وجہ سے کبھی ’’مشرق کا اسکاٹ لینڈ یارڈ‘‘ کہلاتی تھی اس کی یہ بے توقیری افسوسناک ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ریپ اور مرڈر کے ایک واقعے کی بنیاد پر ممتا بنرجی کا تختہ پلٹنے کی سازش کی جارہی ہے۔ مجرموں کی فوری گرفتاری اور انہیں سخت سزا دینے کا مطالبہ جائز ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی غفلت اور لاپروائی پر تنقید اور نااہل سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی جائز ہے لیکن احتجاج کے بہانے صوبے میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ کلکتہ پولیس نے کیس کی تفتیش میں کچھ ٹھوکریں کھائیں لیکن یہ بھی ناقابل تردید سچائی ہے کہ چند گھنٹوں کے اندر اسی پولیس نے کلیدی مجرم کو گرفتار بھی کرلیا۔ وزیر اعلیٰ نے پہلے دن ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ انہیں تحقیقات سی بی آئی کو سونپنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ ایک نہیں دو دوبار مقتولہ کے گھر گئیں اور والدین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ اسلئے وزیر اعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ یقیناً ایک المناک واقعے پر سیاسی روٹیاں سینکنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ نے ۱۳؍اگست کے دن معاملے کی جانچ سی بی آئی کے حوالے کردی تھی۔ منگل کے دن تک جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں سی بی آئی نے ابتدائی رپورٹ تک نہیں دی ہے۔ جب معاملہ مرکزی جانچ ایجنسی اور سپریم کورٹ میں ہے تو پھر ہرروز سڑکوں پر مظاہرے کیوں ہورہے ہیں اور انصاف کا مطالبہ ممتا بنرجی سے کیوں کیا جارہا ہے؟
ممتا بنرجی کو ۱۳؍سالہ دور حکومت میں بلاشبہ اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ پہلے کبھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس ایشو پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں ہمہ وقت ایک قیامت برپاہے۔ میڈیارپورٹرزاور یو ٹیوبرز کی ایک پوری فوج ہر دن میدان میں اترکرلوگوں کا برین واش کررہی ہے۔ کچی پکی معلومات اور افواہوں کی بنیاد پر یہ مفروضہ بنا لیا گیا ہے کہ اس جرم کے ارتکاب میں کئی درندے شامل تھے، ۹؍ اگست کی رات میں خاتون ڈاکٹر کا گینگ ریپ ہوا تھا اور ریاستی حکومت اس جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ اس میں ترنمول کانگریس کے کسی ایم پی کا بیٹا یا بھتیجا ملوث ہے۔ خاتون ڈاکٹر کے لئے انصاف کے طلبگاروں کو چاہئے کہ خود کو شرلاک ہومز سمجھنا ترک کرکے سی بی آئی کی تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کریں ۔
پس نوشت:ممتا بنرجی بی جے پی اور سی پی ایم پر’’ لاش پر سیاست ‘‘کرنے کا الزام لگارہی ہیں ۔انہوں نے چند روز قبل یہ دعویٰ کیا کہ اپوزیشن پارٹیاں بنگال میں بنگلہ دیش کی طرح انتشار اور بدامنی پیدا کرنا چاہتی ہیں تاکہ اقتدار پر قبضہ کرسکیں ۔ حزب اختلاف اقتدار کی حصولیابی کیلئے جائز ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتارہتا ہے۔ ممتانے خود بھی بایاں محاذ کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے ایسے ہتھکنڈے اپنائے تھے۔ دیدی کیلئے خطرے کی بات یہ ہے کہ بنگال کے عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ وہ لاکھوں خواتین اور بھدر لوگ جو دو دہائیوں سے ان کے وفادار ووٹرز رہے ہیں ، ممتا سے بد ظن ہوچکے ہیں ۔ ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی سوکھیندو شیکھر رائے نے بغاوت کردی ہے اور خود وزیر اعلیٰ کا بھتیجا اور ولیعہد ابھیشیک بنرجی روٹھ کر الگ بیٹھ گیا ہے۔ممتا ایک عوامی لیڈر ہیں لیکن اس بار وہ عوام کا موڈ سمجھنے اور انکی نبض پڑھنے میں مات کھا گئیں ۔