• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وقت بدلتا ہے تو بہت کچھ بدلنا ناگزیر ہوجاتا ہے!

Updated: July 21, 2024, 1:43 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کا ۲۴۰؍ پر سمٹ جانا حالات کی تبدیلی کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ یہی ہونا بھی تھا۔ اسی لئے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ کچھ نہیں بدلا مگر بہت کچھ بدلا اور بدل رہا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

نظریاتی سیاسی جماعتوں  کے وہ لیڈر جو اثرورسوخ اور مقبولیت کے معاملے میں  کمزور ہوگئے ہوں ، اپنے سے زیادہ سخت گیر اور شدت پسند لیڈروں  کیلئے نرم چارہ بن جاتے ہیں ۔ اس نکتے کی بہتر تفہیم کیلئے یوپی کے موجودہ حالات کو بطور مثال سامنے رکھنا سودمند ہوگا تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ ہم اُس حکومت سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں  جس کے اراکین کی تعداد خاطرخواہ نہ ہو اور جسے اقلیتی حکومت کہا جاتا ہو۔ بی جے پی کی اتحادی پارٹیوں  نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے کہ یوپی میں  کانوڑ یاترا کی راہ میں  مسلم دکانداروں  کو اپنی شناخت سائن بورڈ یا دکان کی تختی پر ظاہر کرنے کیلئے مجبور کیا جائے۔ بظاہر اس اقدام کی کوئی وجہ نہیں  مگر بباطن ہے۔ اس کا مقصد تنازع پیدا کرنا ہے۔ ماضی میں  نہ تو اس کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایسا کیا جانا چاہئے نہ ہی یہ کوئی مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ اس اقدام کو جس انداز میں  نافذ کیا جارہا ہے وہ بھی عجب ہے۔ پہلے تو نام کی تختی کیلئے کسی سرکاری حکمنامے کے بغیر کہا گیا جس سے ظاہر تھا کہ اس کا مقصد بکھیڑا کھڑا کرنا ہے۔ چند روز پہلے تک یہ معاملہ اتنا گہرا نہیں  ہوا تھا جتنا کہ اُن خبروں  کے بعد ہوا جو یوپی کے وزیر اعلیٰ کی گھیرا بندی سے متعلق تھیں ۔ یوپی میں  بی جے پی کو پارلیمانی انتخابی نتائج کی شکل میں  بڑا جھٹکا لگا ہے جس مذکورہ گھیرا بندی کی راہ ہموار کی۔ تمام ٹی وی چینل بحث کرنے لگے کہ یوپی میں  کیا ہوگا یعنی کیا حکومت بدلے گی وغیرہ مگر ریاست کے وزیر اعلیٰ نے مسلم دکانوں  پر نام ظاہر کرنے کے ایک ہی اقدام سے سیاسی بیانیہ بدل دیا۔ غور کیجئے مرکزی وزراء اس پر کچھ نہیں  کہہ رہے ہیں  کیونکہ اُن کے کہنے سے مرکز کی حکومت کو کوئی فائدہ نہیں  پہنچنے گا۔ 
 نظریاتی بنیادوں  پر قائم سیاسی جماعتوں  کے ساتھ یہی مشکل ہے۔ ان کے لیڈران یوپی میں  کئے گئے اقدام کی کھل کر مخالفت نہیں  کرسکتے۔ بی جے پی وہی کررہی ہے جو اُس نے ہمیشہ کیا ہے یعنی مسلمانوں  کو دبانے اور ہراساں  کرنے کی کوشش۔ کیوں ؟ اس لئے کہ یہی اس کا نظریہ ( آئیڈیالوجی) ہے۔ (اب اگر یوگی اس کو نافذ کررہے ہیں  تو مودی کچھ نہیں  کہہ سکیں  گے) اور یہ صورت حال ۲۰؍ سال میں  پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے کہ کمزور ہوجانے والے لیڈر کو چیلنج کرنے والا لیڈر نظریاتی اعتبار سے زیادہ بااثر اور سخت گیر ہے تو بازی پلٹ جاتی ہے۔ 
 اپریل ۲۰۰۲ء میں ، گودھرا سانحہ کے صرف ایک ماہ بعد، بی جے پی کی قومی عاملہ کی میٹنگ گوا میں  ہوئی تھی۔ تب ایسی چہ می گوئیاں  جاری تھیں  کہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی، گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو استعفےٰ دینے کیلئے کہیں  گے۔ اُس وقت ایک جریدہ نے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا: ’’کس طرح واجپئی، ہندوتوا کی علامت بننے والے کے سامنے خاموش ہوئے؟‘‘ (’’ہندوتواکی علامت‘‘ دراصل ترجمہ ہے انگریزی لفظ کوئر بوائے Choirobyکا جو مذکورہ جریدہ نے استعمال کیا تھا)۔ رپورٹ میں  کہا گیا تھا کہ جیسے ہی بی جے پی کے صدر جنا کرشنامورتی نے اپنا صدارتی خطبہ مکمل کیا، فوراً ہی مودی کھڑے ہوئے اور اپنے مخصوص انداز میں  کہا: ’’ادھیکش جی، میں  گجرات کے بارے میں  کچھ کہنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ پارٹی کے نقطۂ نظر سے یہ ایک سنگین معاملہ ہے، اس پر صاف اور دو ٹوک بحث ضروری ہے جس کے آغاز کیلئے مَیں  اپنا استعفےٰ قومی عاملہ کے روبرو پیش کرنا چاہتا ہوں ، یہی وہ وقت ہے جب ہمیں  طے کرنا ہوگا کہ پارٹی اور ملک کس سمت میں  گامزن ہوں  گے۔‘‘ جریدۂ مذکور نے لکھا کہ مودی نے اس سے زیادہ کچھ نہیں  کہا کیونکہ اس کی ضرورت نہیں  تھی۔ اپنی ایک ہی بات یا ایک ہی نکتے کے ذریعہ اُنہوں  نے ماحول بدل دیا تھا۔ اس کے بعد اُنہوں  نے اپنے حامیوں  کو متحد کرنا شروع کیا جنہیں  اب باقاعدہ گنا جاسکتا ہے۔ وزیر غذا شانتا کمار جو مودی کے خلاف بیان دے چکے تھے مخمصے میں  پھنس گئے، اُنہیں  محسوس ہوا کہ اب تادیبی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا (مگر ایسا نہیں  ہوا البتہ) اُنہیں  معافی مانگنی پڑی۔ 
 جریدۂ مذکور نے لکھا تھا کہ اگر وزیر اعظم واجپئی اپنی شبیہ کو صاف ستھرا  اور مرکز میں  اپنے اتحادیوں  کو ساتھ رکھنے کے مقصد سے مودی کو استعفےٰ دینے پر مجبور کرتے تو اُنہیں  مودی حامی جذبات کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اُنہوں  نے کوشش کی کہ ایک دن کیلئے اس معاملے کو ٹال دیں  مگر اس کی بھی مخالفت کی گئی۔
 واجپئی، مودی سے نمٹنے کی کوشش بھی نہیں  کرسکتے تھے، یہ بات ہر خاص و عام کے علم میں  تھی۔جب آئیڈیالوجی کی بات آگئی تو اس کے سامنے اعتدال پسندی کہاں  ٹھہرتی؟ یہی بات مَیں  نے ابتداء میں  کہی کہ نظریاتی پارٹیوں  میں  جو جتنا سخت گیر ہے اُتنا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ اگر وہ ’’کرشماتی‘‘ سمجھا جاتا ہو تب تو اور بھی مشکل ہوتی ہے۔ ایسا لیڈر اپنے حامیوں  کو متحد کرکے نسبتاً کمزور لیڈر کو بہت طاقتور پیغام دیتا ہے۔ گجرات میں  بی جے پی نے قیادت کی تبدیلی کا حوصلہ نہیں  کیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مودی کو قومی بلکہ عالمی سطح پر اپنی شخصیت کے ’’پُراثر‘‘ تعارف کا موقع مل گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جس ہندوتوا کی دھار کند ہونے لگی تھی اُسے ازسرنو موقع مل گیا اور اُس کے لیڈروں  نے جو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرلیا تھا، وہ اب معذرت خواہانہ نہیں  رہ گیا تھا۔ بی جے پی کیڈر اور آر ایس ایس کو اب ایک ایسا ہیرو مل گیا تھا جو وہی کہتا اور کرتا تھا جو وہ چاہتے تھے۔
 مگر، ۴؍ جون کے بعد اس کی چمک دمک ماند پڑگئی۔ اگر مودی چاہتے ہیں  کہ اُن کی حکومت میں  سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہے تو وہ ایسے موضوعات یا مسائل سے بچنا چاہیں  گے (جیسا کہ مسلم دکانوں  کی نشاندہی) جو اُن کی حلیف جماعتو ں کو مشکل میں  ڈالتے ہوں ۔ حلیفوں  کی دلچسپی ایسے موضوعات سے ہوگی جن کیلئے دباؤ ڈال کر وہ اپنا مفاد پورا کرسکتے ہوں ۔ صرف ۲۴۰؍ سیٹیں  ملنے کے بعد اب وزیر اعظم مودی کی کوشش ہوگی کہ اپنی سخت گیر لیڈر کی شبیہ سے باہر آئیں  مگر یہ ’’مسئلہ‘‘ اُن کا ہے، دیگر لیڈروں  (مثلاً یوگی) کا نہیں  جو خود کو منوانے پر زور دینگے۔ یہ فارمولہ اُن لوگوں  کی بھی سمجھ میں  آرہا ہوگا جو پارٹی میں  خود کو کمزور یا نظر انداز شدہ محسوس کررہے ہونگے۔ 
 رہا سوال مودی کا تو اُن کیلئے وزارت عظمیٰ کی تیسری میعاد پہلی دو میعادوں  سے کافی مختلف ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوران جو کچھ ہوگا وہ مشاہدین کیلئے بڑی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK