عید بس آتی ہی ہوگی۔ چونکہ ہر سال آتی ہے اس لئے، روایتی تیاری ہر خاص و عام کرتا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو عید کا حق ادا کرنے کی بابت سوچتے ہیں۔کبھی سوچا ہے عید کا حق کیا ہے؟ سوچئے گا، اس کیلئے وقت نکالئے گا!!
EPAPER
Updated: March 29, 2025, 1:06 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
عید بس آتی ہی ہوگی۔ چونکہ ہر سال آتی ہے اس لئے، روایتی تیاری ہر خاص و عام کرتا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو عید کا حق ادا کرنے کی بابت سوچتے ہیں۔کبھی سوچا ہے عید کا حق کیا ہے؟ سوچئے گا، اس کیلئے وقت نکالئے گا!!
عید آگئی کہ اسے آنا ہی تھا۔ ہر سال آتی ہے کہ اسے آنا ہی ہوتا ہے۔ جس نے اس کی تیاری کی یہ اس کے لئے بھی آتی ہے اور جس نے تیاری نہیں کی، اس کے لئے بھی آتی ہے۔ اس کے مزاج میں جانبداری نہیں ہے، تعصب نہیں ہے، یہ کسی سے کینہ نہیں رکھتی، کسی سے بغض نہیں رکھتی، کسی کے بارے میں بُرا نہیں سوچتی، کسی سے حسد نہیں رکھتی، کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتی، کسی کو اشراف اور کسی کو اجلاف نہیں سمجھتی، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خوشحالوں کے گھر پہلے چلی گئی اور دیر تک رہی، بدحالوں کے گھر بعد میں پہنچی اور محض خانہ پُری کیلئے رُکی، یہ بھی نہیں ہوا کہ کسی سے معانقہ کیا اور کسی سے مصافحہ تک نہیں کیا۔ عید صدیوں سے آرہی ہے اور اس کی تہذیب صدیوں سے وہی ہے، لوگ بدل جاتے ہیں ، لوگوں کے انداز بدل جاتے ہیں ، عید میں آپ کوئی فرق نہیں پائینگے۔ اس کا کام آج بھی خوشیاں بانٹنا ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ عید کہاں سے آتی ہے مگر ہر شخص جانتا ہے کہ ہر سال آتی ہے اور بلا ناغہ آتی ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آئی ہی نہیں ، کسی ملک میں زلزلہ آیا ہو تب بھی آتی ہے اور کہیں طوفان نے تباہی مچائی ہو تب بھی آتی ہے، بھکمری پھیلی ہو تب بھی آتی ہے اور سیلاب بلا خیز نے قیامت صغریٰ ڈھائی ہو، تب بھی آتی ہے۔ چند سال پہلے دُنیا نے دیکھا کہ چہار جانب کووڈ کی دہشت پھیلی ہوئی تھی، لاک ڈاؤن جاری تھا، مساجد مقفل تھیں ، عید گاہیں معطل تھیں ، یہ تب بھی آئی تھی۔ کووڈ سے بے خو ف ہوکر آئی، لوگ خوفزدہ تھے، اس کے استقبال کی خاطر گھر سے باہر نہیں نکلے تو بے خوف عید خود لوگوں کے گھر گئی اور سب سے ملی۔ کووڈ کے خوفناک ماحول میں بھی عید کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ماسک بھی نہیں تھا۔
عید ہر سال آتی ہے، سالہا سال سے آرہی ہے مگر اس کے حسن عمل میں تبدیلی نہیں آئی، لوگ بدل گئے، زمانہ بدل گیا، حالات بدل گئے، عید کو محسوس کرنے کے طریقے بدل گئے اور عید منانے کے انداز بدل گئے مگر عید نہیں بدلی، اسے منانے والے برسوں سے منا رہے ہیں مگر کم ہی لوگ سوچتے ہیں کہ عید کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہے، اس کا پیغام کیا ہے، یہ صرف منانے کیلئے ہے یا منانے کے ساتھ ساتھ کچھ سوچنے اور سمجھنے کیلئے بھی ہے؟
کبھی غور کیجئے، سب کو خوش کرنے والی عید کیا خود خوش رہتی ہے؟ کیا اسے انسانوں کے طور طریقے ٹھیک لگتے ہیں ؟ انسان عید کے دل کا بھید نہیں جانتا مگر عید انسانی دلوں کا بھید جانتی ہے، وہ نمازِ عید کیلئے عید گاہ آنے والے ہر شخص کو جانتی ہے۔ یہ بھی جانتی ہے کہ کس کے دل میں کیا ہے۔ نماز شروع ہوتی ہے تو وہ صفوں کا جائزہ لیتی ہے۔ سیدھی صفیں ، نئے کپڑوں میں ملبوس مصلیان، کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے لوگ۔ ان میں محمود بھی ہے ایاز بھی۔ نماز میں محمود کو ایاز سے اور ایاز کو محمود سے اُلجھن ہورہی ہے مگر صف توڑی نہیں جاسکتی۔ عید خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہی ہے۔ شادی کا شامیانہ ہوتا تو محمود اور ایاز ہرگز ایک دوسرے کے اتنا قریب نہ پائے جاتے مگر یہاں ہیں ، ’’مجبو ری‘‘ جو ہے۔ عید انہیں دیکھ کر مسکراتی ہے، تب ہی اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ دُعا کے بعد جب لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ کا سلسلہ شروع کرینگے تب دیکھنا چاہئے کہ محمود اور ایاز ملتے ہیں یا نہیں ۔
عید اُن پر نگاہیں مرکوز کردیتی ہے۔ نماز ہوتی ہے، خطبہ ہوتا ہے اور پھر دُعا۔ عید ساکت و جامد کھڑی ہے۔ جیسے ہی دُعا کے بعد مصلیان اپنی نشستوں سے اُٹھتے ہیں ، عید یہ دیکھ کر چونک جاتی ہے کہ محمود دائیں جانب کے غیر شناسا لوگوں سے گلے ملنے لگا اور ایاز بائیں جانب کے اجنبیوں سے مصافحہ کرنے لگا۔ عید جزبز ہوئی مگر اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ کم از کم وہ ایسی نہیں ہے۔ اُس نے محمود کو بھی خوشیوں دیں ، ایاز کو بھی۔ وہ محمود کے دولت کدہ پر بھی گئی، ایاز کے غریب خانے پر بھی۔ عید کو کسی سے گلہ نہیں ۔ وہ سوچ میں پڑ جاتی ہے کیا محمود اور ایاز دونوں نے ’’رسم دُنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے‘‘ کا سبق نہیں پڑھا؟
یہ بھی پڑھئے : رمضان کا آخری عشرہ: ملت کی مالی بدحالی کا اشاریہ
عید کو اِدھر کچھ برسوں سے یہ شکایت ہے کہ لوگ اس کی آمد کا جس طرح سابقہ اَدوار میں جشن منایا کرتے تھے، اب نہیں کرتے۔ اب وہ وہاٹس ایپ پر عید مناتے ہیں ۔جب وہ انسانی بستیوں میں آئی نہیں تھی بلکہ دور کھڑی تھی، تب اُس نے دیکھا تھا کہ چاند رات کو لوگ دیر تک جاگتے رہے اور وہاٹس ایپ کی دُنیا میں مگن رہے، دل کھول کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی، اِموجیز ارسال کئے، جلتے بجھتے چراغوں یا تاروں اور ستاروں سے مزین پیغامات بھیجے اور عید سے پہلے عید منالی۔ دوگانہ ادا کرنے کے بعد ایک دوسرے کے گھر جانے کے بجائے اپنے اپنے گھر جاکر وہاٹس ایپ میں کھوگئے۔ گرمجوشی جسے کہتے تھے، وہاٹس ایپ میں سما گئی ہے۔ مصافحہ اور معانقہ کا چلن ناپید ہورہا ہے۔ عید اس رجحان سے خوش نہیں ہے۔ اسے یہ بھی شکایت ہے کہ کوئی اُس کی خوشی اور ناخوشی کا خیال نہیں رکھتا۔ سب اُسے اپنا حق سمجھتے ہیں اور کوئی اُس کا حق ادا کرنے کو تیار نہیں ۔ اُس کی دلیل یہ ہے کہ جب مَیں موبائل کے اسکرین پر نہیں آتی بلکہ اپنی آمد کی ہر روایت کو نبھاتے ہوئے باقاعدہ آتی ہوں جیسا موبائل آنے سے پہلے آتی تھی تو مجھے منانے والے لوگ روایتی طریقہ کیوں بھول گئے؟ مجھے موبائل کی اسکرین پر منانے کی کیا تُک ہے؟ کیا آنے والے وقت میں وہ دوگانہ بھی وہاٹس ایپ پر پڑھیں گے؟
عید کی باتیں کتنی ہی مدلل ہوں ، اس کے احتجاج میں کتنا ہی دم ہو، لوگوں کے خیال میں عید منانے کیلئے ہے، اُس کی باتیں سننے کیلئے نہیں ۔ بہتوں کو تو یہ بھی علم نہیں کہ عید کچھ کہتی ہے۔ انہیں بتانا چاہئے کہ میاں عید کچھ نہیں بہت کچھ کہتی ہے۔ وہ زکوٰۃ خوروں کو پہچانتی ہے اور اُنہیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اُسے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے جو زکوٰۃ کی خطیر رقم کا معمولی سا حصہ بھی اجتماعی نظم میں شامل نہیں کراتے۔اُسے اُن لوگوں سے بھی گلہ ہے جو ایک سے بڑھ کر ایک غذا کسی مستحق کو تب دیتے ہیں جب وہ بچ جاتی ہے۔ عید اُن لوگوں پر بھی معترضـ ہوتی ہے جو صدقۃ الفطر ادا نہیں کرتے۔ عید اُن سے بھی ناراض رہتی ہے جو اُس کی موجودگی میں دوسروں سے ناراض رہتے ہیں ، شکوہ گلہ بھول نہیں جاتے، شیرو شکر نہیں ہوجاتے۔