• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ:امریکہ میں جمہوریت لہو لہان

Updated: July 17, 2024, 1:15 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

پہلے صدارتی انتخابی مباحثے میں بائیڈن کی ناقص کارکردگی کے بعد ٹرمپ نے صدارتی دوڑ میں بائیڈن پر سبقت حاصل کر لی تھی۔ قاتلانہ حملے کے بعد تو وہائٹ ہاؤس میں ان کی واپسی یقینی سمجھی جانے لگی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ہمیشہ مرنے مارنے کی باتیں  کرنے والے سابق امریکی صدر اور ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ ہفتے کی شام مرتے مرتے بچے۔ پنسلوینیا کے بٹلر قصبے میں  جب ٹرمپ ایک ریلی سے خطاب کررہے تھے اس وقت ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ رائفل کی جو گولی ان کے کان کو چھیدتی ہوئی نکل گئی وہ ان کی کھوپڑی بھی اڑا سکتی تھی۔ ٹرمپ نے خود تسلیم کیا کہ ان کازندہ بچ جانا ایک معجزہ ہے۔اگر حملہ آور کا نشانہ خطا نہ ہوتا تو صرف ٹرمپ کی کھوپڑی کے ہی نہیں  بلکہ دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت کے پر خچے بھی اڑگئے ہوتے۔شکر ہے ٹرمپ بچ گئے لیکن دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت ضرور لہولہان ہوگئی۔
 امریکہ میں  سیاسی تشدد اور سیاسی قتل کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ امریکہ کے چار صدور ابراہم لنکن، جیمس گارفیلڈ، ولیم میکنلی اور جان ایف کینیڈی کو ان کے دور اقتدار میں  قتل کردیا گیا تھا۔ٹائم میگزین کے مطابق امریکی معاشرہ تشدد کے زور پر ہی معرض وجود میں  آیا تھا اور اس وقت سے آج تک یہ پر تشدد ہی رہا ہے۔ سیاست میں  تشدد اور تخریب کاری اگر انسانی رواداری اور جمہوری اقدار کی جگہ لے لے تو پھر لوگ بیلٹ کے بجائے بلٹ پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں ۔ سیاسی حریف کو جانی دشمن سمجھا جائے گا تو ملک میں  انتخابات کی بجائے خانہ جنگی ہوگی۔امریکہ میں  اس بار ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن پارٹیوں  کی انتخابی مہم نے پہلے سے ہی جنگ کی شکل اختیار کررکھی تھی۔ پچھلے چند ماہ سے پورا ملک سیاسی، نظریاتی اور ثقافتی طور پر دو حصوں  میں  تقسیم ہوچکا ہے۔زبردست سیاسی پولرائزیشن کے سبب دونوں  پارٹیوں  کے حامیوں  کے مابین محاذ آرائی میں  بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔الفاظ کی جنگ میں  جب شدت آجائے تو وہ بندوق کی جنگ تک پہنچ جاتی ہے۔ ٹرمپ پر حملہ کے بعد بائیڈن نے تسلیم کیا کہ امریکہ میں  سیاسی نعرے بازی میں  بہت زیادہ شدت اور حدت پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں  نے اس کو ٹھنڈا کرنے کی اپیل بھی کی۔ سیاسی ماحول کو اس قدر جارحانہ بنانے میں  ٹرمپ اور ان کے گرم دماغ ساتھیوں  نے بہت نمایاں  کردار ادا کیا ہے۔ ٹرمپ مفاہمت کے بجائے محاذ آرائی کی سیاست کرتے ہیں  اور اپنے لاکھوں  حامیوں  کو ہمہ وقت خون خرابہ پر اکساتے ہیں ۔ پچھلی بار ٹرمپ نے الیکشن میں  اپنی شکست کو تسلیم نہیں  کیا اور یہ دعویٰ کرتے رہے کہ مینڈیٹ چوری ہوگیا ہے۔ نتیجتاً ۶؍جنوری ۲۰۲۱ء کے دن ٹرمپ کے اشتعال دلانے پر ریپبلیکن پارٹی کے ورکروں  نے کیپیٹل ہل پر مسلح چڑھائی کی تھی۔ یہ خونی بغاوت کی کوشش تھی جو ناکام بنادی گئی ورنہ ملک میں  طوائف الملوکی پھیل سکتی تھی۔
ہفتے کی شام زخمی ہونے کے باوجود ٹرمپ فضا میں  اپنا مکا لہراکر اور چیخ چیخ کر اپنے حامیوں  کو ’’فائٹ فائٹ فائٹ‘‘ کی تلقین کرتے رہے جس سے ان کے جنگجویانہ عزائم پوری طرح واضح ہوگئے۔ ملک بھر میں  ان کیلئے ہمدردی کی لہر پیدا ہورہی ہے۔ ایلون مسک اوربل ایکمین جیسے ارب پتیوں  نے کھل کر ٹرمپ کو صدر منتخب کرنے کی اپیل کردی ہے۔ ۳۴؍ سنگین جرائم کے مجرم ٹرمپ جنہیں  امریکی میڈیا اور دانشور جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کیلئے خطرہ تصور کرتے ہیں ، اب راتوں  رات قومی ہیرو بنتے جارہے ہیں ۔  امریکہ کے طول و عرض میں  ریپبلیکن پارٹی کے لاکھوں  کارکن اور حامی اپنے قائد پر ہوئے حملے کا انتقام لینے کیلئے تڑپ رہے ہیں ۔ ٹرمپ پر گولی چلانے والا ریپبلیکن پارٹی کا حامی تھا  اس کے باوجود بائیڈن اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی اور مین اسٹریم میڈیا پر اس حملے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے اور ہر جگہ ان کے خلاف محاذ آرائی کی جارہی ہے۔
اس طرح کے واقعات کے بعد دوسری قومیں  متحد ہوجاتی ہیں ۔ لیکن امریکہ کو اس واقعے نے متحد کرنے کے بجائے اور زیادہ بانٹ دیا ہے۔ ٹرمپ کے حامی غم و غصے سے دیوانے ہوگئے ہیں ۔ بائیڈن اور ان کی پارٹی پر انگلیاں  اٹھ رہی ہیں ۔ بائیڈن کے سر پر حملے کا ملبہ گرایا جارہا ہے۔ انہوں نے کسی انتخابی تقریر میں  کہا تھا کہ ٹرمپ ایک فسطائی تانا شاہ ہیں  جنہیں  ہر قیمت پر اقتدار میں  آنے سے روکنا ہوگا۔ اب ریپبلیکن پارٹی والے یہ الزام لگارہے ہیں  کہ حملہ آور بائیڈن کے اشارے پر ہی کام کررہا تھا۔ ٹرمپ نے بھی ماضی میں  یہ دعویٰ کیا تھا کہ بائیڈن انہیں  ایف بی آئی کے کسی افسر سے مروا سکتے ہیں  تاکہ وہ الیکشن میں  حصہ نہ لے سکیں ۔ ٹرمپ عرصے سے اس بیانیہ کو فروغ دے رہے ہیں  کہ وہ ڈیموکریٹس کی سازش کا شکار ہوگئے ہیں  جو ان پر جھوٹے مقدمے چلاتے ہیں ، فرد جرم عائد کرواتے ہیں  اور ان کا مواخذہ کرواتے ہیں ۔ خود کو مظلوم ثابت کرنے کے ٹرمپ کے اس فرضی بیانیہ کو  ان پر ہوئے قاتلانہ حملے کے بعد بے پناہ تقویت اور قبولیت مل رہی ہے۔
امریکہ میں  سیاسی رقابت اورنفرت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ٹرمپ اور ان کے سفید فام نسل پرستوں  اور دائیں  بازو کے قوم پرستوں  کا یہ یقین ہے کہ امریکہ کا نظام پوری طرح سے کرپٹ او ر ناکارہ ہوچکا ہے اور نجات کا کوئی اور راستہ نہیں  بچا ہے سوائے اس کے کہ اس نظام کہنہ کو منہدم کرکے ایک نیا نظام بنایا جائے۔ ٹرمپ کی Make America Great Again (MAGA) تحریک ایک بے حد خطرناک فسطائی تحریک ہے۔ یہ لوگ اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے تشدد کی راہ اپنانے سے بھی گریز نہیں  کرتے۔ ضرورت پڑنے پر ٹرمپ کے طرفدار اپنی حکومت کا تختہ بھی الٹ سکتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق ریپبلیکن پارٹی ورکرز کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ امریکہ میں  اگلے دس برسوں  میں  خانہ جنگی ہوکر رہے گی۔ اگر سنیچر کی شام کے قاتلانہ حملے میں  ٹرمپ ہلاک ہوجاتے تو شاید اس وقت امریکہ میں  خانہ جنگی شروع بھی ہوگئی ہوتی۔
 پہلے صدارتی انتخابی مباحثے میں  بائیڈن کی ناقص کارکردگی کے بعد ٹرمپ نے صدارتی دوڑ میں  سبقت حاصل کر لی تھی۔ قاتلانہ حملے کے بعد تو وہائٹ ہاؤس میں  ان کی واپسی یقینی سمجھی جانے لگی ہے۔ مکا لہراتے زخمی ٹرمپ کرپٹ اور جابرانہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت، سرکشی اور انقلاب کی علامت بن چکے ہیں ۔ ٹرمپ کے مطابق ’’دنیا اس تصویر کو یادگار قراردے رہی ہے۔ عموماً یادگار تصویر کھنچوانے کیلئے انسان کو مرنا پڑتا ہے لیکن میں  زندہ ہوں ۔‘‘ ٹرمپ کی جانبازی اور دلیری کے چرچے ہورہے ہیں ۔ امریکی سیاسی پنڈتوں  کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی اس تصویرکے وائرل ہوجانے اور ان کے لئے قومی سطح پر ہمدردی کے جذبات پیدا ہوجانے کی وجہ سے چار ماہ بعد ہونے والے صدارتی الیکشن میں  ان کی فتح کے امکانات کافی بڑھ گئے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK