ڈونالڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو ڈکٹیٹر کہا ہم انہیں اب بھی ایک ملک کا سربراہ سمجھتے ہیں اور ان کی ویسی ہی عزت کرتے ہیں جیسی دنیا کے تمام ملکو ںکے سربراہوں کی کی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہوں گے لیکن انہوں نے جو کیا و ہ اس کے بالکل برعکس تھا۔
دنیا کے آسمان کے علاوہ سیاسی دنیا کا آسمان بھی ایسے ایسے رنگ بدلتاہے جنہیں دیکھ کر سب حیران رہ جاتے ہیں ۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آج جو بات سچ اور حقیقت سمجھ کر کہی جارہی ہے وہ اگلےدن بھی سچ یا حقیقت ہی رہے گی یا جھوٹ اور غلط فہمی نظر آنے لگے گی۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ آج لوگ جسے جھوٹ کہہ رہے ہیں وہ آنے والے کل میں بھی جھوٹ یا حقیقت رہے گی یا ایک سچائی میں بدل جائے گی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی سیاست میں جن افراد اور قوموں کا شمول ہوتا ہے ان میں یہ افراد یا قومیں ایسی کروٹیں بدلتے ہیں کہ انہیں الٹی قلابازی بھی کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ کو ہی لے لیجئے۔ سب جانتے ہیں کہ بیانیہ میں شاید ان کا ثانی کوئی اور نہ ہو۔ انہوں نے الیکشن جیتنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ وہائٹ ہاؤس پہنچنے سے پہلے ہی یوکرین کی جنگ کو رو ک دیں گے، ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ جنگ کو روکنا بہت آسان نہیں ہوتا کیونکہ یوکرین کی جنگ میں امریکی فوجی خود شریک نہیں تھے لیکن انہوں نے’ ناٹو‘ کوفنڈ دے کر یوکرین کی جتنی مد د کی تھی ساری دنیا اسے جانتی ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے ایک قلابازی یہ دکھائی کہ انہوں نے یوکرین کی جنگ بند کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ کچھ ایسا کیا کہ دنیا جسے دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ انہوں نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو ڈکٹیٹر کہا۔ ہم انہیں اب بھی ایک ملک کا سربراہ سمجھتے ہیں اور ان کی ویسی ہی عزت کرتے ہیں جیسی دنیا کے تمام ملکو ں کے سربراہوں کی کی جاتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہوں گے لیکن انہوں نے جو کیا و ہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ یہ خبریں تو آپ کو مل ہی چکی ہوں گی کہ صدر ٹرمپ اور زیلنسکی میں باقاعدہ ’توتو میں میں ‘ ہوئی لیکن یہ صرف تو تو میں میں کا معاملہ نہیں تھا۔ ہم نے زیلنسکی اور ٹرمپ کی ملاقات کا انچاس منٹ کا ویڈیو بھی دیکھا ہے۔ زیلنسکی یوکرین کی کامیڈی فلموں میں کامیڈین بھی تھے اور ٹرمپ نے اسی لئے ان کو مسخرہ کہا۔ یہ بھی سمجھ لیجئے کہ زیلنسکی خود وہائٹ ہاؤس سے باہر نہیں آئے تھے بلکہ ایک مقام پر ٹرمپ نے سیکوریٹی گارڈس کو اشارہ کیا کہ یہ سخت بدتمیز آدمی ہے، اسے یہاں سے لے جاکر ریسٹ روم میں رکھو اور پانی پلاؤ تاکہ ہوش تازہ ہوں ۔ بظاہر یہ لگتا تھا کہ زیلنسکی اس پر بہت برہم ہوں گے لیکن وہ نہ صرف وہائٹ ہاؤس چھوڑ کر چلے گئے بلکہ جلد ہی انہوں نے امریکیوں کو ٹویٹر کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا کہ ہم امریکیوں کے بہت مشکور ہیں ، ہم ان کے صدر کے بھی مشکورہیں ، زیلنسکی امن کے لئے کھڑا تھا اور آج بھی امن کیلئے کھڑا ہے، ہم فوراً ہی یوکرین کی جنگ روک دیں گے چنانچہ برہمی کا انداز اس نرم خوئی میں بدل گیا۔ شاید انہیں یہ خبر تھی کہ امریکہ ناٹو کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا۔
یاد رہے کہ ہم نے اپنے دو ہفتہ قبل کے مضمون ’یورپ اور امریکہ میں اختلاف کی بڑھتی ہوئی خلیج‘ میں آپ کو بتایا تھا کہ ٹرمپ نے میونخ میں ہونے ہونے والی ایک یورپی کانفرنس کیلئے اپنا خصوصی نمائندہ بھیجا تھا جس نے وہاں جاکر دو ٹوک لہجے میں کہہ دیا کہ امریکہ اب ناٹو کی مدد نہیں کرے گا۔ یورپی ممالک یہ بیان سن کر حیران رہ گئے۔انہیں یہ معلوم ہوا کہ اگر امریکہ نے ناٹو کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا تو ناٹو بالکل بے بس اور بے اختیار ہوجائے گا لیکن یوروپی ممالک کو یہ احساس تھا کہ اس طرح کا کوئی بیان یور پی اقوام کو اور بھی ذلیل کرے گاچنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر خود کو اطمینان دلانا چاہا کہ اگر امریکہ ناٹو سے اپنی مدد کھینچ لے گا تو پھر یورپی ممالک مل کر یوکرین کا ساتھ دینگے۔ یوکرین بھی یہ سن کر خوش ہوا لیکن انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ یہ کام نہیں ہوسکے گا۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یورپی ممالک یہ کہہ کر خود کو تسلی نہیں دے رہے تھے بلکہ خود کو اس الجھاوے میں مبتلا کررہے تھے کہ شاید ٹرمپ یہ بات سن کر کچھ نرم پڑ جائیں لیکن ایسا ہوا نہیں کیونکہ گزشتہ چالیس سال کی تاریخ پر نظر ڈالئے دنیا میں کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں امریکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک نہ رہا ہو۔ دوسری جنگ عظیم واحد ایسی جنگ تھی جس میں یورپ بذات خود جنگ میں شریک ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہٹلر نے تمام یورپ کو اپنے قبضے میں کرلینے کا منصوبہ بنایا اور یہ کام کسی حد تک کر بھی لیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے : تصویر کشی کی سیاست اور تصویر کشی میں سیاست
یہ جب جنگ ختم ہوئی بھی تو اسی وقت ہوئی جب امریکہ نے ایٹم بم کا استعمال کرلیا۔اس کے بعد سے اگر آپ زمین پر نظر ڈالئے تومعلوم ہوگا کہ ناٹو میں شامل تمام یورپی ممالک کا دفاعی بجٹ جملہ اکتالیس ارب کروڑ ڈالر ہے جبکہ اکیلے روس کا دفاعی بجٹ اس سے بہت زیادہ بڑا ہے چنانچہ یہ سمجھنا کہ یور پی ممالک روس کے مقابلے میں آجائیں گے ، بالکل غلط ہوگا۔
یہی نہیں ٹرمپ نے ایک اور کمال کیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ساری دنیا کو حیران کر دیا کہ امریکہ اور پوتن ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور روس کا جو حصہ یوکرین کے پاس ہے وہ اسے خالی کریگا۔ روس اور امریکہ کی اس دوستی کی بات سے بھی دنیا ششدر رہ گئی۔ ایک بار پھر گزشتہ تاریخ پر نظر ڈالئے۔ امریکہ اور روس میں ایک نظریاتی اختلاف تھا۔ جو لوگ ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں یا امریکی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ ہالی ووڈ کی زیادہ تر فلمیں جن کا نقطۂ عروج جیمس بانڈ تھا، سب روس کی مخالفت میں بنی تھیں اور اس طرح کے کئی ناول بھی سامنے آئے جن میں روس کے نظریئے کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا تھا بلکہ اسے عالمی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ تو پھر روس اور امریکہ کی اس نئی دوستی کا مطلب کیا ہے؟ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، بلکہ دنیا کے ہر اس انسان کا تعلق ہے جو امن دوست اور صلح پسند ہے، ٹرمپ کا یہ بیان کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
یوکرین میں چاہے جو کچھ بھی ہوا ہو لیکن ٹرمپ کی ایک دھمکی سے غزہ میں جنگ بند ہوگئی اور قتل و غارت گری کا طوفان رک گیا۔ امریکہ کی نافذ کردہ جنگ بندی کی تھی اب بھی قائم ہے۔