• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بائیڈن یاٹرمپ:امریکی ووٹرز کسے صدر منتخب کریں؟

Updated: July 03, 2024, 1:41 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

یہ سیاسی قیادت کی مفلسی بلکہ بحران نہیں تو اور کیا ہے کہ امریکہ کی دونوں اہم پارٹیوں کے امیدواروں پر رائے دہندگان کو نہ تو بھروسہ ہے اور نہ ہی وہ ان کی پسند پر پورے اتر رہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 امریکہ کی سیاست میں اس وقت زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ پچھلے ہفتے ہوئے صدارتی مباحثے میں  موجودہ صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی ’’تباہ کن کارکردگی‘‘ کے بعد ان کی نامزدگی واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ مباحثے کے ایک دن بعد سی این این کے ایک سروے میں ۶۷؍ فیصد ناظرین نے کہا کہ ٹرمپ کا پرفارمنس بائیڈن سے کہیں  زیادہ بہتر تھا۔امریکی میڈیا اور سوشل میڈیا کا متفقہ فیصلہ بھی یہی تھا کہ اس مباحثے میں  بائیڈن کی ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔ڈیموکریٹ پارٹی بظاہر اپنے امیدوار کا دفاع کررہی ہے لیکن بائیڈن کے متبادل کو میدان میں  اتارنے کی قیاس آرائیاں  بھی جاری ہیں۔ زیادہ تر ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات نے بائیڈن کے مایوس کن مظاہرے کے بعد ان کی امیدواری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے اپنے اداریہ میں  بلا حیل و حجت، غیر مبہم الفاظ میں  یہ اعلان کردیا کہ بائیڈن کو اپنی صدارتی امیدواری سے دستبردار ہوجاناچاہئے۔
 امریکی میڈیا کی اکثریت ٹرمپ کو ناپسند کرتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی واپسی امریکہ کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ نیو یارک ٹائمز جو درحقیقت ڈیموکریٹک پارٹی کا حمایتی ہے، نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ بائیڈن قوم کو واضح طور پر یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ اپنی دوسری مدت میں کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ٹرمپ کی اشتعال انگیزیوں  کا مقابلہ کرنے میں، ان کے جھوٹے دلائل کو مسترد کرنے اور ان کی ناکامیوں  پر ان کا محاسبہ کرنے میں  بھی ناکام رہے۔ اپنی ضعیف العمری اور ذہنی نحیفی کی وجہ سے بائیڈن کئی بار اپنے فقرے تک مکمل نہیں کرسکے کیونکہ بائیڈن اب وہ شخص نہیں  رہے جو چار سال قبل تھے۔ ان کی عمر ۸۱؍ برس ہے اور وہ امریکہ کی تاریخ کے بزرگ ترین صدارتی امیدوار ہیں۔
 بائیڈن کا حافظہ اور ان کی زبان دونوں  ان کا ساتھ نہیں  دے رہے ہیں ۔ ۲۷؍ جون کے ڈیبیٹ کے دوران ان کے خیالات میں انتشار اور گفتگو میں  بے ربطی تھی۔ افراط زر، ہیلتھ کئیر، اسقاط حمل اور تارکین وطن جیسے اہم داخلی امور پر ان کے خیالات مبہم اور ناقابل فہم تھے۔ ابھی جب یہ حال ہے تو تصور کیجئے کہ چار سال بعد جب وہ ۸۵؍ سال کے ہوجائیں  گے تب کیا ہوگا۔ امریکہ کے صدر کو دنیا کا مضبوط ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نحیف و نزار بائیڈن اس امیج پر پورے اترتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا جسمانی طور پر معذور اور ذہنی طور پر کمزور ایسے صدر کے ہاتھوں میں امریکہ جیسے سپر پاور کی باگ ڈور دینا دانشمندی کا تقاضہ ہے؟
 اگر بائیڈن بدحواس اور غائب دماغ ہیں تو ٹرمپ بددماغ اوربدمزاج ہیں ۔ٹرمپ کا امریکی جمہوری اقدارمیں  یقین ہی نہیں  ہے۔ ان کا رویہ فسطائی اور طرز عمل آمرانہ ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت میں  ہی اپنے لچھن آشکارا کردیئے تھے۔ ۲۰۲۰ء کے انتخابات میں بائیڈن سے ہارجانے کے باوجود ٹرمپ اور ان کے حامیوں  نے جمہوری نتیجے کو تسلیم نہیں  کیا اور مستقل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ یہی نہیں  ۶؍ جنوری ۲۰۲۱ء کو کیپیٹل ہل (امریکی پارلیمنٹ) پر چڑھائی کرکے ٹرمپ خیمے نے اپنے خطرناک فسطائی عزائم کا شرمناک مظاہرہ بھی کیا۔ جمعرات کی شب کے ڈیبیٹ میں  ٹرمپ کی باتوں  سے یہ صاف لگ رہا تھا کہ ان کے غیر جمہوری رویے میں  کوئی تبدیلی نہیں  ہوئی ہے اور اگر اگلے الیکشن کا نتیجہ بھی ان کے خلاف گیا تو وہ اسے بھی قبول نہیں  کرینگے۔ٹرمپ متعدد قانونی مقدمات کے نرغے میں  ہیں  جن میں  جنسی بے راہ روی کا کیس بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ جیسے کم علم،زبان دراز، جھوٹے اور بدکردار شخص کے ہاتھوں  میں  امریکہ جیسے سپر پاور کی باگ ڈور دی جاسکتی ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں امریکہ کا جمہوری نظام محفوظ رہ سکتا ہے؟
ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن بلاشبہ زیادہ سمجھدار، حساس، ذمہ دار لیڈر ہیں جو اپنی کابینہ کے رفقاء کے ساتھ باہمی صلاح مشورے کے بعد ہی پالیسی کے اہم فیصلے کرتے ہیں ۔ ٹرمپ کی روش من مانی کرنے کی ہے اور ہر فیصلہ کرتے وقت وہ اپنا اور اپنے دوستوں  کا مفاد مدنظر رکھتے ہیں۔ بائیڈن کی عمر اور ان کی صحت کو دیکھتے ہوئے امریکی عوام اور خود ان کی پارٹی کے متعدد لیڈران کی قیادت پر اپنا اعتماد نہیں  رکھ پارہے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ بائیڈن اگر رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوجائیں  تبھی پارٹی ان کی جگہ کوئی اور امیدوار کھڑا کرسکتی ہے اور بائیڈن میدان چھوڑنے کیلئے تیار نہیں  ہیں۔
 یہ سیاسی قیادت کی مفلسی بلکہ بحران نہیں  تو اور کیا ہے کہ امریکہ کی دونوں  اہم پارٹیوں  کے امیدواروں  پر رائے دہندگان کو نہ تو بھروسہ ہے اور نہ ہی وہ ان کی پسند پر پورے اتر رہے ہیں ۔ ۳۴؍ کروڑ کی آبادی والے ملک کیلئے جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے اور سب سے بڑی فوجی طاقت بھی، یہ شرم کی بات ہے کہ اس کے پاس صدر کے عہدے کیلئے ایک ایسا موزوں  شخص بھی نہیں  ہے جو تندرست و توانا بھی ہو اور چاق وچوبند بھی، با صلاحیت بھی ہواور باہنر بھی، جو اپنے ملک کی رہبری بھی کرسکے اور دنیا کو بھی ساتھ لے کر چل سکے۔ یوں تو پورا امریکہ دو سیاسی خیموں میں بٹا ہوا ہے اورامریکی عوام یا تو ری پبلیکن یا ڈیموکریٹ پارٹی کے حامی ہیں اس کے باوجود نومبر میں مجوزہ الیکشن کے دونوں امیدواروں کے تئیں عوام میں  عدم دلچسپی اور عدم اعتماد عروج پرہے۔ ایسے رائے دہندگان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو دونوں امیدواروں میں  کسی ایک کو بھی ووٹ دینا نہیں چاہتے ہیں۔ امریکہ میں ایسے ووٹروں کو Double Haters کہا جاتا ہے۔یہ لوگ اس بات پر خفا ہیں کہ انہیں دو برے امیدواروں میں سے کسی ایک کم برے امیدوار کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔پیو ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ ۲۰۲۰ء کے صدارتی انتخاب کے مقابلے میں اس بار ایسے رائے دہندگان کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ اسی ریسرچ کے مطابق اس وقت امریکہ کے ایک چوتھائی ووٹرز کو Double Haters کی فہرست میں  رکھا جاسکتا ہے۔ ایریزونا، نیواڈا، وسکونسن، مشی گن، پنسلوینیا، نارتھ کیرولینا اور جارجیا جیسے swing states میں ان ناراض ووٹروں  کی بڑی تعداد موجودہے۔اگر ان ناراض ووٹروں نے ۵؍نومبر کے دن اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں  کیایا اپنا ووٹ تیسرے امیدوار کو دے دیاتو ان کی اس منفی ووٹنگ کا صدارتی انتخاب پر کیااثر پڑسکتا ہے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ ابھی یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس بار الیکشن کون جیتے گا: ٹرمپ یا بائیڈن۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK