اسمبلی انتخاب کے مدنظر راہل گاندھی کا حالیہ بہار دورہ اور راشٹریہ جنتا دل کے کارکنوں کی میٹنگ سے ریاست میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں ۔
EPAPER
Updated: January 23, 2025, 6:04 PM IST | Doctor Mushtaque Ahmed | Mumbai
اسمبلی انتخاب کے مدنظر راہل گاندھی کا حالیہ بہار دورہ اور راشٹریہ جنتا دل کے کارکنوں کی میٹنگ سے ریاست میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں ۔
بہار میں سیاسی سرگرمیاں بہت تیز ہو رہی ہیں ۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ نتیش کمار ریاست کے مختلف حصوں میں پرگتی یاترا کے ذریعہ عوام کی نبض ٹٹول رہے ہیں تو دوسری طرف حزب اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو بھی ریاست گیر دورہ کے ذریعہ اپنے کارکنوں کو اسمبلی انتخاب کے لئے کمر بستہ ہونے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ دریں اثناء کانگریس بھی فعال ہوگئی ہے اور حالیہ راہل گاندھی کا بہار دورہ کانگریس کارکنوں کے اندر نئی جان پھونکنے میں کامیاب رہا ہے۔ البتہ راہل گاندھی نے اپنے کارکنوں کو یہ اشارہ نہیں دیا کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہوگا۔ واضح رہے کہ راہل گاندھی نے کانگریس کے ریاستی صدر دفتر صداقت آشرم پٹنہ میں کانگریس کے چنندہ کارکنوں کی میٹنگ بلائی تھی اور اس میں مرکز کی مودی حکومت کے خلاف صف بند ہونے کے ساتھ ساتھ نتیش کمار کی حکومت کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ بالخصوص ریاست میں ذات شماری پر بھی سوال اٹھایا اور پارٹی کارکنوں کو اس بات کے لئے تیار رہنے کو کہا کہ اگر بہار میں این ڈی اے کی شکست ہوتی ہے اور نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو کانگریس ریاست میں دوبارہ ذات شماری کرائے گی۔ راہل گاندھی نے مبینہ طورپر یہ الزام بھی لگایا کہ بہار میں جو ذات شماری ہوئی ہے اس میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہیں اور ڈاٹا بھی مصدقہ نہیں ہے۔ اگرچہ جس وقت بہار میں ذات شماری ہوئی تھی اس وقت ریاست میں نتیش کمار کی قیادت والی کابینہ میں کانگریس بھی شامل تھی کہ اس وقت این ڈی اے کی نہیں بلکہ انڈیا اتحاد کی حکومت تھی اور ریاستی عظیم اتحاد میں راشٹریہ جنتا دل، بایاں محاذ کے ساتھ کانگریس بھی نتیش کمار کی ذات شماری کا سہرا اپنے سر باندھ رہی تھی۔ میرے خیال میں راہل گاندھی سے یہ بھول ہوئی ہے کہ انہوں نے ذات شماری کے مسئلہ کو چھیڑا ہے۔ البتہ راہل گاندھی نے بہار پبلک سروس کمیشن کے مقابلہ جاتی امتحانات کو رد کرنے کو لے کر تحریک چلانے والے طلباء اور دھرنا پر بیٹھے امیدواروں سے ملنے اور اس امتحان کو رد کرنے کا مطالبہ کی پہل کی ہر طرف تعریف ہورہی ہے۔ لیکن جس وقت راہل گاندھی صداقت آشرم میں اپنے پارٹی کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے عین اسی وقت راشٹریہ جنتا دل کی بھی میٹنگ ہوٹل موریہ میں چل رہی تھی اور اس میٹنگ میں راشٹریہ جنتا دل نے یک طرفہ اعلان کیا کہ بہار میں عظیم اتحاد کی طرف سے تیجسوی یادو وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ اس اعلامیہ سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کو اپنے اتحادیوں سے صلاح و مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ورنہ وہ اپنی پارٹی کی طرف سے اپنے وزیر اعلیٰ عہدے کے امیدوار کے طورپر تیجسوی کا نام پیش کر سکتے تھے اور عظیم اتحاد کی مشترکہ میٹنگ میں اس پر مہر لگا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا ضروری نہیں سمجھااس سے ظاہر ہوتا ہے کہ راشٹریہ جنتا دل خوش فہمی کی شکار ہے۔ جبکہ تلخ سچائی یہ ہے کہ بہار میں جس طرح کی سیاسی صف بندی ہو رہی ہے اس میں راشٹریہ جنتا دل کی زمین دن بہ دن تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کا جو کور ووٹر یاد و ہے وہ اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں ۔ حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج اس کے ثبوت ہیں۔ اس سے پہلے پارلیمانی انتخاب میں بھی چھپرہ سے لالو یادو کی بیٹی روہنی یادو کی شکست اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ اب یادو ووٹوں میں انتشار ہے۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اب تک ریاست میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ’’مائی‘‘ اتحاد یعنی مسلم اور یادو ووٹ متحد ہے مگر ایسا نہیں ہے۔
گزشتہ اسمبلی انتخاب سے ہی یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ جہاں کہیں بھی مسلم امیدوار رہے ہیں وہاں یادو ووٹروں نے اپنے اتحاد کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں بھی یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں پرشانت کشور کی نئی سیاسی جماعت کی طرف مسلمانوں کا رجحان بڑھا ہے کہ انہوں نے آبادی کی شرح کے مطابق مسلم امیدوار کھڑا کرنے کی بات کہی ہے۔ اگرچہ پرشانت کشور کی سیاست اظہر من الشمس ہے کہ وہ کس کی حمایت میں متحرک ہیں۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ بہار کے آئندہ اسمبلی انتخاب میں راشٹریہ جنتا دل کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ایسی صورت میں راشٹریہ جنتا دل کا یہ اعلان کہ عظیم اتحاد کی طرف سے تیجسوی یادو ہی وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے، خسارے کا سودا ثابت ہو سکتاہے۔ اگر لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو چاہتے تو اس کا اعلان اپنے اتحادیوں کی مشترکہ میٹنگ کے ذریعہ کر اسکتے تھے اور اس کا مثبت پیغام ریاست میں جاتا کیوں کہ عظیم اتحاد کی بھی مجبوری ہے کہ وہ ریاست میں راشٹریہ جنتا دل کے ہاتھوں میں ہی قیادت سونپے۔ مگر اس عجلت نے کئی طرح کے سوال پیدا کر دئیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے اس اعلامیے کے بعد کانگریس اور بایاں محاذ کا موقف کیا ہوتا ہے۔ چونکہ ابھی اسمبلی انتخاب میں کافی وقت ہے کہ نومبرمیں انتخاب ہونا ہے اگرچہ یہ بھی چہ می گوئیاں ہیں کہ نتیش کمار قبل از وقت بھی انتخاب کرا سکتے ہیں اور انہیں دہلی اسمبلی انتخاب کے نتائج کا انتظار ہے۔ مگر نتیش کمار شاید ہی ایسا کریں گے کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اگر قبل از وقت انتخاب ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ ترقیاتی ہدف کو پورا نہیں کر سکیں گے۔
بہر کیف!اسمبلی انتخاب کے مدنظر راہل گاندھی کا حالیہ بہار دورہ اور راشٹریہ جنتا دل کے کارکنوں کی میٹنگ سے ریاست میں سیاسی سرگرمیاں مزید تیز ہو گئی ہیں ۔ کانگریس کے کارکنوں کے بھی حوصلے بلند ہوئے ہیں البتہ راہل گاندھی کے جلسہ میں کانگریس کے کارکنوں کے ہاتھوں میں تختیاں تھیں جس پر ۲۴۳؍ کا ہندسہ لکھا ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ کانگریس کے کارکن بہار میں آئندہ اسمبلی انتخاب تنہا لڑنا چاہتے ہیں مگر کانگریس کے اعلیٰ کمان شاید ہی ایسا قدم اٹھا سکیں گے۔ حالیہ ہریانہ، مہاراشٹر میں کانگریس اپنی زمینی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے اور بہار میں جس طرح جنتا دل متحدہ کی مجبوری ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ یا پھر نئے اتحادیوں کے ساتھ ہی اسمبلی انتخاب میں جا سکتی ہے اسی طرح کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کی بھی مجبوری ہے کہ وہ تنہا میدان میں نہیں اتر سکتی۔