۱۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے بہت صاف اور واضح لفظوں میں بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف اپنا مطمح نظر ہی بیان نہیں کیا تھا، ملک بھر کیلئے رہنما خطوط بھی جاری کئے تھے۔
EPAPER
Updated: March 25, 2025, 1:25 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
۱۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے بہت صاف اور واضح لفظوں میں بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف اپنا مطمح نظر ہی بیان نہیں کیا تھا، ملک بھر کیلئے رہنما خطوط بھی جاری کئے تھے۔
۱۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے بہت صاف اور واضح لفظوں میں بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف اپنا مطمح نظر ہی بیان نہیں کیا تھا، ملک بھر کیلئے رہنما خطوط بھی جاری کئے تھے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ملزموں کے مکانات پر بلڈوزر چلانا غیر آئینی ہے اور قانون کی حکمرانی یا بالادستی کے تصورکے منافی ہے، حکومت یا اس کے کارپرداز خود منصف نہیں بن سکتے اور انہدامی کارروائی کے ذریعہ ملزموں کو سزا نہیں دے سکتے۔ یہ اُن کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔حکومتوں کو چاہئے کہ ضابطوں کی پاسداری کریں ، ملزموں کو نوٹس جاری کریں اور اتنا وقت دیں کہ وہ عدالت سے رجوع کرسکیں ۔ مگر ہم آپ دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے احکام کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کی جارہی ہے۔ ملزموں کو قانونی چارہ جوئی کی بالکل مہلت نہیں دی جاتی اور کارروائی آناً فاناً کی جاتی ہے۔ ناگپور کے پُرتشدد واقعات کے بعد بلڈوزر کو حرکت دی گئی جس کا اشارہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس دے چکے تھے۔ ناگپور فساد کے ماسٹر مائنڈ قرار دیئے گئے فہیم خان کی رہائش گاہ کے خلاف کارروائی جاری ہی تھی کہ بامبے ہائی کورٹ کا حکمنامہ جاری ہوا جس میں کارروائی روکنے (اسٹے) کیلئے کہا گیا تھا مگر تب تک بھاری سیکوریٹی میں فہیم خان کا دو منزلہ مکان، واقع سنجے باغ کالونی، یشودھرا نگر) زمیں بوس ہوچکا تھا۔خبروں کے مطابق فہیم خان کے مکان کی مالک اُن کی والدہ ہیں ۔ ایک اور ملزم یوسف شیخ کے محل علاقے میں واقع مکان کے کچھ حصے غیر قانونی قرار دے کر منہدم کئے جاچکے تھے اور قریب تھا کہ پورا مکان منہدم کیا جاتا، عدالت کا حکمنامہ پیش کیا چکا تھا۔ اس معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کے دو ججوں (جسٹس نتن سامبرے اور جسٹس رُشالی جوشی) نے کہا کہ ’’اس ایکشن سے زور زبردستی (ہائی ہینڈیڈ نیس) ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس میں املاک کے مالکان کی نہیں سنی گئی۔‘‘
قارئین کو یاد ہوگا، سپریم کورٹ نے اپنے ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کے فیصلے میں کہا تھا کہ بلڈوزر کارروائی کے ذریعہ ریاستی انتظامیہ عدالتی اختیارات میں دخل اندازی کا سبب بنتا ہے ، ’’طاقت کی تقسیم‘‘ (ڈویژن آف پاور) متاثر ہوتی ہے، فطری انصاف پر ضرب لگتی ہے، ایک شہری کا پناہ گاہ کا حق پامال ہوتا ہے اور صرف ملزم نہیں اس کے پورے کنبے کو اجتماعی سزا دی جاتی ہے۔ یہ جسٹس گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن کا تبصرہ تھا جسکے بعد رہنما خطوط جاری کئے گئے تھے ۔ کیس پر اپنی رائے دیتے وقت جسٹس گوئی نے اندرا گاندھی بمقابلہ راج نرائن (۱۹۷۵ء)، قومی حقوق انسانی کمیشن بمقابلہ اروناچل پردیش (۱۹۹۶ء)، آدھار کیس (۲۰۱۸ء) اور بلقیس بانو کیس (۲۰۲۴ء) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ قانون کی بالادستی حکومتوں کے ذریعہ اختیارات کے من مانے استعمال پر روک لگاتی ہے۔
مگر ریاستی حکومتیں نہ تو عدالتی تبصرہ پر توجہ دے رہی ہیں نہ ہی انصاف کے تقاضوں کو پورا کررہی ہیں ۔ اب تک جو کچھ یوپی میں ہوتا رہا وہی مہاراشٹر میں شروع ہوا ہے۔کسی ملزم کے خلاف براہ راست کارروائی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ملزم کو مجرم قرار دے دیا جبکہ مجرم قرار دینے کا اختیار عدالت کا ہے، حکومت کا نہیں ۔ عدالت فریقین کے دلائل اور شواہد سننے اور دیکھنے کے بعد مناسب فیصلہ کرتی ہے۔ بلڈوزر کارروائی کے ذریعہ یوپی میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور اب مہاراشٹر میں شروع ہوا ہے، اس کو سپریم کورٹ ہی روک سکتا ہے اور کوئی نہیں ۔