• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

احساس ِ زیاں خود سے تو پیدا نہیں ہوتا

Updated: July 06, 2024, 2:10 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

شاعر مشرق علامہ اقبال کا شعر کہ ’’خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی‘‘ خاصا مشہور ہے مگر کیا اس کے مفہوم پر غور کیا گیا؟ اس میں جس تقاضے کی طرف اشارہ کیا گیا اُسے سمجھا گیا؟ افسوس یہی ہے کہ لوگ باگ ان باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جاپان ایسا ایشیائی ملک ہے جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد خود کو اس طرح سنبھالا کہ اس کی مثال ققنس سے دی جاسکتی ہے۔ ققنس (انگریزی میں فینکس) کے بارے میں روایت ہے کہ یہ پرندہ (خیالی) عرب کے ریگستان سے اُبھرا، پانچ چھ سو سال زندہ رہنے کے بعد خو دکو بھسم کرلیا اور پھر اسی آگ میں سے جوان ہوکر نکلا، تاکہ ازسرنو پانچ چھ سو سال کا دَور پورا کرے۔ دوسری جنگ عظیم میں تباہ و برباد ہونے کے بعد اِس ملک نے نئے سرے سے اپنے اقتصادی سفر کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسا کامیاب صنعتی ملک بن گیا کہ خود ہندوستان میں اس کی اشیاء اور مصنوعات کا بول بالا کل بھی تھا، آج بھی ہے۔ 
 گزشتہ دِنوں اِس ملک نے تین نئے کرنسی نوٹ جاری کئے۔ بیس سال میں پہلی بار جاری شدہ ان کرنسی نوٹس کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعہ تین ایسی شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے جن کا تعلق اقتصادیات، تعلیم و حقوق نسواں اور طب سے ہے۔ ماضی کی اِن شخصیات نے جدید جاپان کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لئے اُن کے مقصد حیات اور خدمات کی مسلسل یاد دہانی کیلئے اُن کی اِس طرح عزت افزائی کی گئی ہے۔  
 جاپان کی کرنسی ’’یَن‘‘ ہے۔ دس ہزار یَن کے نوٹ پر ایشی شیبوساوا کی تصویر ہے جو عہد ماضی میں جاپانی معیشت کو جدید بنانے کے محرک، تاجر اور صنعتکار تھے۔ انہوں نے ملک کے اولین جوائنٹ اسٹاک کارپوریشن کے علاوہ ٹوکیو گیس اور او جی ہولڈنگز جیسی پانچ سو کمپنیاں قائم کیں۔ حالانکہ وہ سرمایہ داری پر یقین رکھتے تھے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اخلاقی اور انسانی قدروں   کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اُن کا کہنا تھا کہ معیشت اور اخلاقیات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے انداز فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُن کے نزدیک منافع کمانا اہم تھا مگر عوامی مفاد کی قیمت پر نہیں۔ پانچ ہزار یَن کے نوٹ پر اُمیکو تسودا کی تصویر ہے جو تعلیم نسواں کی محرک تھیں۔ اُنہوں  نے ایسے ادارہ کی بنیاد ڈالی تھی جو آگے چل کر ٹوکیو تسودا یونیورسٹی بنا۔ ایک ہزار یَن کے نوٹ پر سائنسداں اور ماہر ِ جرثومیات کہلانے والے شیبوسابورو کتاساتو کی شیبہ ہے۔ 
 آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مَیں یہ ساری باتیں کیوں بتا رہا ہوں۔ تاکہ یہ اعادہ ہوجائے کہ وہ قومیں جو ترقی کرچکی ہیں اور مزید ترقی کرنا چاہتی ہیں، نہ تو اپنے اسلاف کو بھولتی ہیں نہ ہی علم و فن کی قدر شناسی سے منہ موڑتی ہیں۔ ہندوستان بھی اس معاملے میں   لائق ستائش ہے جس نے کرنسی نوٹ پر مہاتما گاندھی کی تصویر کو لازم رکھا ہے۔ حکومتیں آئیں اور گئیں، کرنسی نوٹس پر گاندھی جی کی شبیہ کل بھی تھی آج بھی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دن بھر میں درجنوں مرتبہ کرنسی نوٹس ہر خاص و عام کے ہاتھوں سے گزرتی ہیں، کتنے لوگ ہیں جو ان پر مہاتما گاندھی کی تصویر دیکھ کر کبھی غور کرتے ہیں یا اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ہم گاندھی کو کتنا جانتے ہیں؟
شاید ہی کوئی ہوگا جو کبھی اس زاویئے سے سوچتا ہوگا۔ گاندھی جی کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ اُن کے مخالفین بھی اُن کی اہمیت و شہرت کو دھندلا نہیں کرسکے۔ اُن کے معتقد بیرونی ملکوں میں بھی ہیں جو اُن کے فلسفہ ٔزندگی بالخصوص عدم تشدد کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا جیسی شخصیات نے، جو اپنے آپ میں کافی بلند مرتبہ ہیں، گاندھی کے نظریات ہی سے استفادہ کرکے مسائل و مصائب کا مقابلہ کیا۔ 
 اگر سطور ِ الا میں یہ کہا گیا ہے کہ گاندھی میں بڑی طاقت ہے تو اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ گاندھی کی وجہ سے ہم ہندوستانیوں   میں بھی بڑی طاقت ہے۔ اس طاقت کا احساس تب ہوگا جب ملک کا ہر شہری گاندھی کے نظریات اور اُن کی تعلیمات کو سمجھے اور اُنہیں اپنانے کی فکر کرے۔ اَہنسا یا عدم تشدد کا معنی صرف یہ نہیں ہے کہ انسان تشدد سے باز رہے اور اگر تشدد کا سامنا ہو تو سامنے والے کو روک دے یا خود کو علاحدہ کرلے۔ عدم تشدد کا معنی یہ بھی ہے کہ حالات کو اُس موڑ تک جانے ہی نہ دیا جائے کہ تشدد کا خطرہ پیدا ہو۔
اس معنی پر غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ حالات کو اس حد تک قابو میں رکھنے کیلئے، کہ تشدد کی نوبت نہ آئے، برادرانہ تعلق، ہمدردی، بہی خواہی، اشتراک و تعاون، معاملہ فہمی اور ایسی ہی دیگر صفات کا حامل  ہونا ضروری ہے۔ ان صفات کو گھر کی تربیت کا حصہ اور نصابی تعلیم کی جزو نیز اہم سرگرمی ہونا چاہئےمگر ایسا نہیں ہے۔ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ عقلمند کہلائے مگر یہ نہیں   چاہتے کہ دردمند بنے۔ہمارے نظام تعلیم کا اصرار و ایقان عقلمندی پر ہے، دردمندی پر نہیں ہے۔ 
 بڑوں کی باتیں سننے، پڑھنے ، سمجھنے اور ان پر غوروفکر کرنے سے شخصیت میں گہرائی اور دبازت پیدا ہوتی ہے اور مذکورہ بالا صفات سے متصف ہونے کی راہ آسان ہوجاتی ہے۔ اسکولوں کالجوں میں کون ہوگا جو گاندھی کو نہیں جانتا؟ مگر کون ہوگا جو اُنہیں جاننے کی طرح جانتا ہوگا؟ موجودہ دَور میں تشدد کا بڑھ جانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ملک نے گاندھی کے فلسفہ ٔ عدم تشدد کو اُس طرح نہیں سمجھا جیسا کہ اُس کے سمجھنے کا حق ہے۔ جس جاپان کا ذکر اس مضمون کی ابتدائی سطور میں آیا ہے، اُس کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پولیسنگ بہت سخت ہے یا محکمۂ پولیس بہت فعال ہے؟ جی نہیں  ۔ بچپن ہی میں نرم خوئی اور رواداری کے عناصر پیدا کردیئے جائیں تو کردار میں اس کی خوشبو پیدا ہوجاتی ہے اور یہی اسلوبِ زندگی بن جاتا ہے۔ پھر اندرون خانہ اور بیرون خانہ افہام و تفہیم اور رواداری کا ایک جیسا ماحول اُن عناصر کو تقویت پہنچاتا ہے۔ جاپان میں یہی ہوتا ہے۔ وہاں موٹر گاڑی چلانے والا ہارن تک نہیں بجاتا کہ اُس کے نزدیک ایسا کرنا اُس شخص کی بے عزتی جیسا ہے جو دھیمی رفتار سے چل رہا ہے یا کسی وجہ سے رُک گیا ہے۔ جیسے عوام ویسی حکومت۔ وہاں کی حکومت نے قانون بنا دیا کہ اگر کوئی شخص ہارن بجائے اور جس کیلئے ہارن بجایا گیا، وہ حکام سے شکایت کردے تو ہارن بجانے والے کے خلاف چالان ہوسکتا ہے۔ کیا اس سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ابھی ہمیں بہت بدلنا ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK