• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’دے اور دِل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور‘‘

Updated: June 22, 2024, 1:06 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

کچھ ریاستیں پولیس اور دیگر سرکاری محکموں کی بول چال اور لکھنے پڑھنے کی زبان سے اُردو الفاظ کو بے دخل کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ ممکن ہوگا یا نہیں، یہ بعد کی بات ہے مگر خود اہل اُردو، اُردو الفاظ کی بے دخلی کو ممکن بنا چکے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

چھتیسگڑھ کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ وجے شرما کا کہنا ہے کہ پولیس کے کام کاج، سرکاری محکموں   کی دستاویزات، سرکاری مکتوبات اور محکمہ جاتی ہدایات میں   اُردو، فارسی اور عربی الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے اور ان کی جگہ آسان ہندی الفاظ کو رائج کیا جائے۔ چھتیس گڑھ سے پہلے مدھیہ پردیش میں   بھی اُردو، فارسی اور عربی الفاظ کو سرکاری بول چال اور تحریروں   سے بے دخل کرنے پر آواز اُٹھی تھی۔ وہاں   کچھ پیش رفت بھی ہوچکی ہے۔ 
 وجے شرما کی تجویز سے متعلق خبر میں  ، جو گزشتہ روز ٹائمس آف انڈیا (رائے پور ایڈیشن) میں   شائع ہوئی، مدھیہ پردیش کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہاں   یہ کام ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وویک جوہری کو اُس وقت سونپا گیا تھا جب سابق وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے اس سلسلے میں   ’’اظہارِ تشویش‘‘ کیا تھا۔ اخبار مذکور کے مطابق ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں   ایک اعلیٰ پولیس افسر کی نوک زبان پر لفظ ’’دستیاب‘‘ آیا تو وزیر اعلیٰ نے فرمایا تھا کہ اُردو فارسی الفاظ کو آسان ہندی الفاظ سے بدلنا چاہئے۔ اس سے بھی پہلے دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو متوجہ کیا اور حکم دیا تھا کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر اُن الفاظ کی فہرست آویزاں   کرے جن کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہئے اور ہندی متبادل کا استعمال کرنا چاہئے۔ 
 وجے شرما کی تجویز سے متعلق خبر ہندی، انگریزی کے کئی روزناموں   کی ویب سائٹس پر شائع ہوئی ہے جن میں   بطور مثال وہ الفاظ درج کئے گئے ہیں   جن کا استعمال اَب محل ّ نظر یا یوں   کہہ لیجئے کہ ممنوع ہے یا ہوگا۔ ان میں   گرفتار یا گرفتاری، نقب زنی، چشم دید، استغاثہ، ارادتاً اور غیر ارادتاً، مچلکہ، جامہ تلاشی، مضروب، تحریر، ترمیم اور سنگین جیسے الفاظ شامل ہیں  ۔ آگے بڑھنے سے قبل شیو راج سنگھ چوہان صاحب کی خدمت میں   عرض ہے کہ ستمبر ۲۳ء میں   جب آپ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوش خبری دے رہے تھے کہ بینا (ایم پی) میں   ۵۰؍ ہزار کروڑ کی لاگت سے پیٹرو کیمیکل کامپلیکس قائم ہونے جارہا ہے، تب آپ نے کچھ اور نہیں  ، یہ کہا تھا جسے من و عن نقل کیا جارہا ہے کہ اس سے ’’پورے علاقے کی تصویر بدل جائے گی اور یہا ں  کی جنتا کی تقدیر بدل جائے گی‘‘ تو محترم اس مختصر جملے میں   ’’تصویر‘‘ بھی آئی اور ’’تقدیر‘‘ بھی۔ کیا آپ ایم پی کے موجودہ وزیر اعلیٰ اور اعلیٰ افسران کو ہدایت دیں   گے کہ یوٹیوب پر موجود آپ کی اُس تقریر سے تصویر اور تقدیر کو ہٹا کر اُس کی جگہ ’’چِتر‘‘ اور ’’بھاگیہ‘‘ جیسا ہندی متبادل لایا جائے؟ 
 حقیقت، غالبؔ کے الفاظ میں   ’’بنتی نہیں   ہے بادہ و ساغرکہے بغیر‘‘ ہے۔ جب یہ صورت ِحال ہو تو بلاوجہ کسی تعصب کو دل میں   جگہ دینا اور اس کی وجہ سے روزمرہ کی زبان کے ساتھ زیادتی کرنا کوئی معنی نہیں   رکھتا۔ جو الفاظ رائج ہیں   وہ رائج ہیں  ۔ جو زبان زد عام ہیں   وہ زبان زد عام ہیں  ۔ جو دل سے نکل کر زبان پر آجاتے ہیں   اُنہیں   کوئی نہیں   روک سکتا۔ لوگ اُنہیں   بولیں   گے، لکھیں   گے، پڑھیں   گے اور اس طرح وہ الفاظ استعمال میں   رہیں   گے۔ اُنہیں   بدلنے کی کوشش کرنا عوامی حافظے میں   جگہ جگہ پیوند لگانے جیسا ہے خواہ پیوند مخمل ہی کا کیوں   نہ ہو۔ عوام و خواص ازخود یعنی اپنی سہولت کے مطابق ترمیم و تبدیلی کرلیں   اور کسی لفظ کی جگہ کسی دوسرے لفظ کو فوقیت دینے لگیں   تو الگ بات ہے۔ تبدیلی مسلط اور نافذ نہیں   کی جاسکتی، زبانوں   کے معاملے میں   تو بالکل نہیں  ۔ زبانوں   کی تاریخ گواہ ہے کہ الفاظ کو عوام رائج کرتے ہیں  ، حکومتیں   نہیں  ۔ بول چال میں   اپنی سہولت کے الفاظ کا استعمال اور زبانوں   کی تراش خراش کا حق عوام  سے کوئی نہیں   چھین سکتا۔ اگر سرکاری ہدایات و دستاویزات میں   اُردو الفاظ کا استعمال ناگوار گزر رہا ہے تو کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُردو میں   سنسکرت اور ہندی الفاظ کے استعمال پر ماتھا ٹھنکنے لگے اور یہ حکم جاری ہوجائے کہ ان الفاظ کو ہٹائیے۔ کون نہیں   جانتا کہ ہندی کے بغیر اُردو اَدھوری ہے۔ اس میں   سنسکرت بالخصوص ہندی کے بے شمار الفاظ رائج ہیں  ۔ ہندی کو بے دخل کیا گیا تو اُردو میں   بیٹھنا، اُٹھنا، بولنا، سوچنا، سونا، جاگنا، بڑھنا، پڑھنا، کچھ بھی ممکن نہ ہو کہ یہ تمام الفاظ ہندی سے آئے ہیں   اور اُردو کا جزو لاینفک بن گئے ہیں  ۔ اُردو لغات دیکھئے، بے شمار الفاظ کے آگے ’’ہ‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی ان کا مآخذ ہندی ہے۔ ’’اُردو اور ہندی کا لسانی اشتراک‘‘ میں   ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ: ’’ عام اندازے کے مطابق اُردو کے ستر فیصد الفاظ پراکرتوں   کے ذریعہ سے آئے ہیں   یعنی ہندی ہیں  ۔ باقی تقریباً تیس فیصد الفاظ عربی فارسی اور ترکی کے ہیں  ۔‘‘  
 آمدم بر سر مطلب یعنی اب مَیں   اپنے اصل مدعا کی طرف آتا ہوں  ۔ جب چھتیس گڑھ کے وزیر موصوف کا بیان میری نظر سے گزرا تو مجھے ناگوار گزرا مگر فوراً ہی خیال آیا کہ یہ صاحب کیا اُردو کو بے دخل کرینگے، اہل اُردو خود اپنی زبان کے بہتیرے الفاظ کو بے دخل کرچکے ہیں  ۔ اب اِس معاشرہ میں  ، جسے اُردو معاشرہ کہتے ہوئے اگر شرم نہیں   آتی تو تکلف ضرور ہوتا ہے، قلم، بیاض، صحن، حافظہ، الماری، معالج، طبیب، مطب، شفا خانہ، ریزگاری اور چوراہا جیسے سیکڑوں   الفاظ استعمال میں   نہیں   ہیں  ۔ اس کیلئے کوئی حکم جاری نہیں   ہوا تھا، یہ اہل اُردو کا اپنا فرمان تھا جو اُنہوں   نے خود جاری کیا اور اس پرنہایت صدق دلی سے خود ہی عمل کیا۔ 
 مدھیہ پردیش میں   ۶۹؍ الفاظ زیر بحث آئے تھے جبکہ دہلی ہائی کورٹ میں   ۳۸۰؍ الفاظ کی فہرست پیش کی گئی تھی۔ اہل اُردو تو اُن سے بہت آگے ہیں   جن کے خارج کردہ الفاظ کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ اب آپ کن لوگوں   کو محبان اُردو اور کن لوگوں   کو دشمنان اُردو کہیں   گے؟ عالم یہ ہے کہ جو گنے چنے لوگ اچھی اُردو بولنے کی کوشش کرتے ہیں   اُنہیں   اپنے مخاطب کی جانب سے حیرت و استعجاب کے تاثر کے علاوہ کچھ نہیں   ملتا۔ بعض اوقات یہ سوچ کر ذہن ماؤف ہوجاتا ہے کہ اُردو کے اُس سرمایۂ کتب کا کیا ہوگا جس میں   ایک سے بڑھ کر ایک کتاب موجود ہے اور اہل علم کو دعوت مطالعہ دیتی ہے مگر اب تو اہل علم اور اہل اُردو میں   بھی فرق آتا جارہا ہے یا شاید آگیا ہے۔ جو اہل اُردو ہے وہ اہل علم ہو ضروری نہیں   ہے۔ خود اہل اُردو میں   کتنے ہیں   جو اُردو کے اہل ہیں  ؟ اِس پر غور ہونا چاہئے کہ کبھی کبھی خود کو شرمندگی سے دوچار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK