• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’دن کا غرور ٹوٹ گیا شام ہوگئی‘

Updated: June 11, 2024, 1:44 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

مودی کی یہ شام بہت لمبی تھی، لیکن وہ بقول شاعر فیض احمد فیض ’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘۔ مودی کی اس دن میں ان کی عظمت کا اقبال اتنی عروج پر تھا کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتی تھیں اور دیکھنے والے پسینے سے تر بتر ہو جاتے تھے لیکن اب ان کا غرور ٹوٹ چکا ہے ،سب کی امید آس کے اُس چاند پر ہے جو بہت جلد نکلنے والا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ۲۰۲۴ ءکے تاریخی الیکشن ہوگئے۔ہم جانتے ہیں  کہ انقلاب کے ان کالموں  کا لکھنے والا اس موضوع پر لکھنے کےلئے کتنا بے چین ہوگا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں  کہ فاضل کالم نگاروں  میں  سے ایسے ذہین لوگ بھی ہیں  جو ہمارے اس مضمون سے بھی بہتر لکھیں  گے، وہ خود بھی ان کے کالم پڑھ کرپسند کرینگے۔  اس وقت ہم ان انتخابات پر بس اتنا عرض کریں  گے کہ بی جے پی الیکشن جیت کر بھی ہار گئی ا ور بی جے پی کو نہیں  بلکہ نریندر مودی وارانسی سے جیتنے کے علاوہ اس الیکشن میں  بری طرح ہار گئے۔ نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈوکے ساتھ بی جے پی کا معنی ہے کہ اب ہندوراشٹر کا ایجنڈہ کسی گہری کھائی میں  چلا جائے گا۔ یہ دونوں  انہیں  اس بات کی اجازت نہیں  دیں  گے۔
 یوں  تو ہر الیکشن میں  کچھ نہ کچھ باتیں  ہوتی ہیں  جو بڑی حیران کن ہوتی ہیں ، اس الیکشن میں  بھی کچھ ایسی باتیں  دکھائی دیں ۔ پہلی بار ووٹروں  کو سمجھایاگیا تھا کہ گر بی جے پی ہار گئی اور اس کی جگہ کوئی دوسری پارٹی (اتحاد) جیسے انڈیا آگئی تو وہ ہندوئوں  کے منگل سوتر بھی چھین کر مسلمانوں  کو دے دے گی۔ پیسوں  کے معاملے میں  نریندر مودی کا  علم ہمارے علم سے بہت زیادہ ہوگا لیکن یہاں انہوں  نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اس علاقے سے بی جے پی ہار گئی تو ان کے گلے سے ان کا منگل سوتر چھین لیا جائیگا۔ یہ بات انہوں  نے ہندوخواتین کو بھڑکانے کیلئے کہی تھی،  اس بارے میں  ہمیں  تھوڑ ا کچھ معلوم ہے۔ ہم نے اپنی ریاست مہاراشٹر میں  سیکڑوں  مسلمان خواتین کو منگل سوتر پہنتے دیکھا ہے، وہ اس بات کو اپنے لئے قابل قدر سمجھتی ہیں ۔
 مودی جی کو یہ بات شاید معلوم نہیں  تھی اور شاید انہوں  نے اس کے بارے میں  جاننے کی کوئی کوشش بھی نہیں  کی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ ہندوخواتین کو منگل سوتر چھینے جانے کا غم بھی نہیں  تھا اور شاید وہ بھی سمجھتی تھیں  کہ ہندوستان میں  مسلمان عورتیں  بھی  ا س نشانی کو مانتی ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ بی جے پی کا امیدواربانسواڑہ میں  لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ووٹوں   سے  ہا رگیا۔ بانسواڑہ نے مودی جی کی اپیل کا اس طرح جواب دیا۔  چنانچہ ہندو عورتوں  نے منگل سوتر کے جنتر منتر کا آخری کریہ کرم کردیا ۔اس کے علاوہ ایودھیا میں   رام مندر بنانے کے پلان کو مودی جی نے اپنا منتر بنالیا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب انہیں  یہ معلوم ہوا کہ ہندو توا کام نہیں  کررہا ہے۔ ہمیں  معلوم نہیں  کہ اس مندر کو بنانے کیلئے سرکاری خزانہ سے کتنا مال لیا گیا کیونکہ جہاں  تک ہمیں  معلوم ہے کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو تعمیر کرنے یا مرمت کرنے کیلئے سرکاری خزانہ سے رقم نہیں  لی جا سکتی۔ اس لئے ہمیں  یقین ہے کہ کوئی ٹرسٹ بنانا پڑا ہوگا۔ ٹرسٹ بنانے کیلئے چندے کی ضرورت ہوتی ہے اور مودی جی تو چندہ لینے کے ماہر ہیں  ۔ ہزاروں  کروڑ کا چندہ جمع ہوا۔ مودی جی یہ سمجھتے تھے کہ اس مندر کیلئے اگر دنیا بھر کے لوگ نہیں  تو ہندوستان کے ہر گوشے سے لوگ آئینگے اسی لئے مندر کے آس پاس جو بازار تھا وہ مالکوں  کو بڑا منافع دیں  گے۔ اسی لئے اس زمین کو گجراتی بھائیوں  کے ہاتھوں  فروخت کردیا گیا۔ مندر تیار ہوا اور زبردست تیار ہوا لیکن اچنبھےکی بات یہ ہے کہ ایودھیا میں  بی جے پی کا امیدوار ۲؍ لاکھ کے قریب ووٹوں  سے ہار گیا۔ الیکشن میں  ہارنا جیتنا عام بات ہے لیکن اب ہمیں  معلوم ہوا کہ عوام کے نزدیک مہنگائی اور بے روزگاری زیادہ بڑھے ایشوز تھے۔ ہم ان کالموں  میں  لکھ چکے ہیں  کہ راہل گاندھی کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ انہوں  نے الیکشن کے ایشوز کو بدل دیا۔ 
 ایک اوربات کرنا ضروری ہے۔ اس بار کے الیکشن میں  بی جے پی کے وہ تمام ساتھی جنہوں  نے کسی بھی طرح بی جے پی کا ساتھ دیا تھا وہ بھی بہت مایوس ہوئے۔ان میں  سے اب کئی لوگ ایم پی نہیں  ہیں ۔بے شمار مثالیں  ہیں  جیتنے اور ہارنے والوں  کی۔ ہریانہ میں  چوٹالہ کوئی کارنامہ نہیں  دے سکے، اور بیجو جنتا دل بھی اُدیشہ میں بالکل صاف ہو گیا۔ محبوبہ مفتی  اُن کے ساتھ تھیں  عوام اس بات کو نہیں  بھولے۔  انہوں  نے بی جے پی سے مل کر حکومت بنائی تھی ان کی بھی پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ اُدیشہ میں  بیجو پٹنائک کی پارٹی بیجو جنتا دل پچھڑ گئی  اور ساتھ ساتھ ہونے والے اسمبلی الیکشن میں  ہار گئی۔ 
  اس الیکشن میں  سوشل میڈیا نے زبردست کارنامہ انجام دیا۔ ہم آپ کو دو اینکر س کی مثالیں  دیتے ہیں  ۔ ان میں  سے ایک دھرو راٹھی ہیں ۔ گزشتہ مہینوں  میں  انہوں نے مودی کے خلاف بے شمار ویڈیوز بنائے۔قارئین جانتے ہی ہیں  کہ ان کے ویڈیوز کمال کے ہوتے ہیں  اسی لئے ناظرین کی تعداد بھی غیر معمولی ہے۔  اسی  طرح رویش کمار کے ناظرین بھی کروڑوں  میں  ہیں ۔ ایسے دور میں  جب ہر یوٹیوب پر بہت سے صحافی روزانہ ویڈیو اَپ لوڈ کرتے ہیں  اور اس طرح بڑی صحافتی خدمت انجام دے رہے ہیں  مگر یہ دو نوجوان ایسے ہیں  جنہوں  نے غیر معمولی جرأتمندی کا ثبوت دیا اور مودی کے بیانات اور تقریروں  کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اُن کے کئی جھوٹ پکڑے۔ اسی لئے یہ دو لوگ کامیاب ہیں ۔ اتنے کامیاب ہیں  کہ اگر تمام گودی چینلوں   کے ناظرین کو جوڑا جائے تو ان کا دسواں  حصہ بھی نہیں  ہونگے۔ رائے دہندگان کو بیدار کرنے کی یہ زبردست مہم تھی جو ان دو نوجوان صحافیوں  نے چلارکھی تھی۔ 
 مودی کا لوک سبھا میں  جانا بہت خوشگوار نہیں  ہے کیونکہ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مودی نے اڈانی اور امبانی کو پیسہ پہنچانے  کے لئے یہ افواہ اڑائی کہ اسٹاک ایکسچینج بہت اوپر جانے والا ہے ۔ مودی نے یہ تک کہا کہ خوب پیسہ لگاؤ، خوب کماؤ ۔ بھولے بھالے صارفین اس میں  آگئے لیکن ۴؍ جون کو اسٹاک ایکسچینج دھڑام سے نیچے گر پڑا۔اس سلسلے میں  کانگریس نے بڑا جرأتمندانہ سوال اُٹھایا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK