دنیا کے کئی ملکوں نے مزدوری یا ملازمت کیلئے اپنے لوگوں کو اسرائیل بھیجنے سے انکار کر دیا۔ ٹرمپ اسی لئے دوست بن کر عربوں کو دغا دینے پر آمادہ ہیں کہ مصر اور اردن فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسنے کی اجازت دیدیں۔ یہ جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدل دینے کے مترادف ہوگا۔ مقام شکر ہے کہ غزہ کے لوگوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
گزشتہ ہفتہ کے مضمون میں غزہ کی نئی صبح کو صبح ِ کاذب ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے مگر دعا یہی ہے کہ امن کے سورج کی جو کرنیں غزہ میں نظر آرہی ہیں وہ مستقل ہوں اور اجالا ہر طرف پھیل جائے۔ اجالے پر تاریکی کس طرح حملہ آور ہوسکتی ہے؟ اس سلسلے میں چند سوالات کا ذہن میں ہونا ضروری ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جنگ حماس کے اس حملے سے شروع ہوئی تھی جو ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا نتیجہ تھی۔ اسرائیل نے انتقام لینے کا اعلان کیا اور حملے کرتا رہا جن میں پچاس ہزار کے قریب فلسطینی شہید اور ۲۰؍ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے لیکن کیا فلسطینیوں کا یک طرفہ نقصان ہوا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا کیا وہ اپنے اعلان کے مطابق حماس کو ختم کرسکا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ اسرائیل حماس جنگ نہ ہونے کی مستقل سبیل پیدا ہوئی ہے؟ ان تینوں سوالوں کا جواب میری نظر میں ’نہیں ‘ ہے۔ جنگ میں فلسطینیوں کا گھر، اسپتال، اسکول، مسجد سب تباہ ہوگئی مگر اسرائیلیوں میں یہ خوف پیدا ہوگیا کہ وہ محفوظ نہیں ہیں ۔ حماس کی میزائلوں نے ابھی نیند چھینی ہے آئندہ جان مال بھی ہڑپ سکتی ہے۔ اسرائیلیوں کے اس خوف نے ہی انہیں نیتن یاہو کے خلاف مظاہروں پر مجبور کیا۔ ۱۵؍ مہینوں میں دو چار نہیں ۹۰۰؍ سے زیادہ مظاہرے ہوئے۔ کیا ان مظاہروں کے ہوتے نیتن یاہو حکومت زیادہ دنوں ٹک سکتی تھی اور کیا اسرائیل کی فوج غزہ میں اس سے زیادہ تباہی لاسکتی تھی جتنی وہ لاچکی تھی۔
اسرائیل حماس کو ختم تو کیا کرتا وہ اس کو بدنام کرنے میں بھی ناکام ہوا ہے۔ اسرائیلی فوجی خواتین کی رہائی سے جو حقائق سامنے آئے ہیں یا حماس نے اسرائیلی خواتین کو جو تحائف دئیے ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حماس نے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں کیا ہے جبکہ اسرائیلی قید سے رہا ہونے والوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ عرصہ پہلے طالبان کی قید سے رہائی پانے والی ایک خاتون صحافی کی تحریر نظر سے گزری تھی۔ اس میں اس نے طالبان کے حسن سلوک کی تعریف کی تھی۔ حماس کی قید میں رہ کر رہائی پانے والی خواتین کی کوئی تحریر تو ابھی نظروں سے نہیں گزری ہے مگر ان کے چہرے بشرے سے ہی وہ حالات نمایاں ہو رہے ہیں جن سے وہ گزرتی رہی ہیں ۔ ابھی تک دنیا کے کسی ملک، کسی چینل یا کسی اخبار نے بھی یہ شکایت نہیں کی ہے کہ حماس نے اسرائیلی خواتین کے ساتھ برا سلوک کیا۔ آئندہ کیا ہوگا؟ یہ پیش گوئی تو ممکن نہیں ہے مگر ایک بات کو پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ حملہ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اسرائیل نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جنگ کی صورت میں اسرائیلی بڑی حد تک آسودہ رہنے کے باوجود اپنی ہی حکومت کیخلاف مظاہرہ کریں گے، یہاں تک کہ نیتن یاہو حکومت کیلئے برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا یا یہ کہ فلسطینی سب کچھ کھونے اور مسلسل میتیں اٹھانے کے باوجود اس درجہ استقامت کا مظاہرہ کریں گے کہ دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ خون کی دھار سے بھی خنجر کی دھار مڑ سکتی ہے۔ حماس کو مسلح بنانے اور تربیت دینے میں ایران کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ یہ بھی مشہور کیا گیا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل ایران پر حملہ کر دیں گے مگر ٹرمپ کے بیانات سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب طویل جنگ لڑنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان نے امریکہ اور اس کی فوجی طاقت کا وہ حشر کیا ہے کہ اب وہ جنگ میں کودنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ فلسطینی عوام نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ عرب ملکوں کی مسلح افواج کی طرح نہیں ہیں کہ اسرائیلی فوجوں کے حملے کے ساتھ ریت کی دیوار کی طرح گر جائیں ۔
ان کے صبر اور مزاحمت کی قوت اسرائیل کی جارحیت پر بھاری ہے۔ اسرائیل اور مغرب کا یہ پروپیگنڈہ بھی ناکام ثابت ہوا ہے کہ حماس کے لوگ نیم وحشی لوگ ہیں ۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں یروشلم کو اسرائیل کی دوسری راجدھانی اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیاں بسائے جانے پر خوشی کا اظہار کیا تھا اب وہی ٹرمپ فخر کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہوں نے حلف لینے سے پہلے ہی جنگ بندی کروا دی مگر یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ جنگ بندی کس قیمت پر ہوئی ہے۔ اسرائیل کو اسی حماس سے معاہدہ کرنا پڑا ہے جس کو وہ دہشت گرد قرار دیتار رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں ہونا ضروری ہے کہ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام اور ۱۹۶۷ء میں عربوں کی شرمناک شکست اور پھر ۱۹۷۱ء میں عربوں کی نئی صف بندی کے بعد سے ہی اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی کوشش رہی ہے کہ عرب ملکوں کی دفاعی قوت باقی نہ رہے۔ اس کوشش میں وہ مصر اور کچھ دوسرے ملکوں میں تو کامیاب ہوئے مگر فلسطین خاص طور سے فلسطین کے اس حصے میں جس کو غزہ کہتے ہیں سخت ناکامیوں سے دو چار ہوئے۔
یہ بھی ٖپڑھئے: غزہ۔ اسرائیل جنگ بندی اور بے حس انسانیت!
حماس کا وجود، جدوجہد، مزاحمت اور ۲۰۲۳ء، ۲۰۲۴ء کے بعد بھی اس کے باقی رہ جانے سے تو ان کی سخت سبکی ہوئی اور اب حماس سے معاہدہ کے بعد تو ان کو شرمناک حالات سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ یرغمالوں کے بیانات اور رخساروں سے پھوٹتی خوشی نے ظاہر کر دیا ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو بھی حماس کی قید میں رہ لیں تو اس کو سمجھ میں آجائے کہ صدر مملکت کی حیثیت سے انہیں جو آسائش میسر نہیں ہے وہ حماس کی قید میں میسر ہوسکتی ہے۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ غزہ سے تو وہاں کے باشندوں نے اس لئے فرار اختیار کیا تھا کہ وہاں بمباری ہورہی تھی مگر اسرائیل میں کیا ہوا کہ وہاں کے باشندوں کی نیند اڑ گئی یا دنیا کے کئی ملکوں نے مزدوری یا ملازمت کیلئے اپنے لوگوں کو اسرائیل بھیجنے سے انکار کر دیا۔ ٹرمپ اسی لئے دوست بن کر عربوں کو دغا دینے پر آمادہ ہیں کہ مصر اور اردن فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسنے کی اجازت دیدیں ۔ یہ جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدل دینے کے مترادف ہوگا۔ مقام شکر ہے کہ غزہ کے لوگوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ یہ بھی ظاہر کر دیا کہ امریکہ اپنے ملک میں آباد غیر ملکیوں کو تو بھگا رہا ہے مگر مصر اور اردن سے چاہتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو اپنے ملکوں میں بسا لیں تاکہ اسرائیل کا سر درد ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔ یہ دہرا معیار ہے۔ مسئلہ فلسطین کا واحد حل فلسطینی مملکت کا قیام ہے مگر امریکہ اور اسرائیل دونوں نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ جنگ بری چیز ہے مگر حماس اور اہلیان غزہ کو جو ملا ہے وہ جنگ ہی سے ملا ہے آئندہ بھی جو ملے گا لڑنے سے ہی ملے گا۔ اچھا ہے کہ غزہ کے عوام کسی جھانسے میں نہ آئیں ۔ ان کی استقامت ہی مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو ممکن بنا سکے گی۔