Inquilab Logo Happiest Places to Work

غیروں سے شکایت نہیں، اپنوں سے گلہ ہے!

Updated: April 19, 2025, 1:28 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

اُردو زبان کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ شاندار ہے، جاندار ہے اور ہر اعتبار سے تعریف کا حقدار ہے مگر کیا عدالتی فیصلہ سے زمینی حقائق بدل جائینگے؟ لوگ نادانیاں ترک کردینگے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

’’مَیں  ہندوستان ہوں ، ہمالیہ میری سرحدوں  کا نگہبان ہے، گنگا میری پوترتا کی سوگندھ، تاریخ کی ابتداء سے مَیں  اندھیروں  اور اُجالوں  کا ساتھی ہوں  اور میری خاک میں  سنگ مرمر کی چادروں  سے لپٹی یہ عمارتیں  گواہ ہیں  کہ ظالموں  نے مجھے لو‘ٹا اور مہربانوں  نے مجھے سنوارا، نادانوں  نے مجھے زنجیریں  پہنا دیں  اور میرے چاہنے والوں  نے اُنہیں  کاٹ پھینکا۔‘‘ 
 فلم ’’مغل اعظم‘‘ کا یہ طویل ابتدائی مکالمہ آج مجھے اس لئے یاد آگیا کہ مَیں ، جو اُردو ہوں ، جی ہاں ، مَیں  جو اُردو ہوں ، آج ویسے ہی جذبات سے مغلوب ہوں  جیسے اِس مکالمے کے ذریعہ بیان ہوکر لافانی ہوگئے۔ مَیں  بھی کہنا چاہتی ہوں  کہ ’’مَیں  اُردو ہوں ، اسی ہندوستان میں  پیدا ہوئی اور یہیں  پلی بڑھی، اس عظیم الشان سرزمین نے مجھے ایسا سازگار ماحول دیا کہ نین نقش کے معاملے میں  مَیں  دوسروں  سے ایک قدم آگے ہوگئی، اس عظیم ملک نے مجھے ماں  کا پیار اور باپ کا دُلار دیا، جنوب و شمال کے عوام نے میری زلفیں  سنواریں  اور میرا ماتھا چوما، اِس ملک کی دو بڑی قوموں ، ہندو اور مسلمان، نے کسی امتیاز و تعصب کے بغیر مجھے اپنایا، سر آنکھوں  پر بٹھایا اور اس قابل بنایا کہ میری ہموطن دیگر زبانوں  کے لوگ مجھے رشک آمیز نگاہ سے دیکھنے لگے۔ انہی دیگر زبانوں  میں  ہندی سے میرا بہناپا اور سہلاپا ہے، ماجائی کہا جاتا ہے تو میرا مافی الضمیر ادا ہوگا، لوگ، ہم بہن نما سہیلیوں  کو یا سہیلی نما بہنوں  کو لڑاتے ہیں  مگر کامیاب نہیں  ہوتے، اس کوشش میں  وہ خود لڑجاتے ہیں  اور ہم دونوں  اُنہیں  دیکھ کر ہنستی ہیں  کہ کتنے نادان ہیں ، سیاسی فائدہ کیلئے ایسی نادانی کرتے ہیں ؟ ہم دونوں  تو محبتوں  کی پروردہ ہیں ، ہمیں  سیاست سے کیا کام؟ کتنے ہی ادیبوں ، شاعروں ، فنکاروں ، مدرسوں  اور عام انسانوں  نے کبھی میری مدد لی کبھی میری بہن اور سہیلی ہندی کی، ہمارے اٹوٹ رشتے کو بہت صحیح طور پر جانا اور پرکھا تھا مہاتما گاندھی نے۔ وہ چاہتے تھے ہم دونوں  ساتھ ساتھ رہیں ، ہم میں  تفریق نہ کی جائے، حکومت دونوں  کو ایک آنکھ سے دیکھے، قانون ساز ادارے ہم میں  ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دیں ، مگر ....  یہاں  ایک منٹ ٹھہریئے اور مغل اعظم کا مکالمہ ایک بار پھر یاد کیجئے، ’’مَیں  ہندوستان ہوں ، ظالموں  نے مجھے لو‘ٹا اور مہربانوں  نے سنوارا‘‘، میری بھی یہی کہانی ہے، مخالفین اور متعصبین نے مجھے بدنام کیا، مجھے حقارت سے دیکھا، مجھے ایک خاص مذہب سے جوڑا اَور مجھ پر بدیسی ہونے کا الزام لگایا مگر مہربانوں  نے میرے حسن و جمال، نزاکت و نفاست اور شگفتگی و شیرینی کی قسمیں  کھائیں ، مَیں  کبھی کہتی نہیں  ہوں  مگر یہ کتابوں  میں  درج ہے کہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے فرمایا تھا: ’’کانگریس پارٹی کی میٹنگ میں  ۷۷؍ ووٹ ہندی کی مخالفت میں  اور ۷۸؍ ووٹ ہندی کی موافقت میں  آئے، ہندی نے قومی زبان کا مقام صرف ایک ووٹ سے حاصل کیا۔‘‘ یہاں  میٹنگ کا موضوع یاد رہنا چاہئے۔ یہ تھا قومی زبان ہندی ہو یا اُردو؟ میٹنگ ہندی کو قومی زبان قرار دیئے جانے کے سلسلے میں  منعقد کی گئی تھی۔ (بحوالہ ’’اُردو کا مقدمہ عوام کی عدالت میں ‘‘، صفحہ ۴؍ اور ۵، مصنف ظفر احمد صدیقی)۔ یقین جانئے اس پر مَیں  غمزدہ نہیں  تھی کیونکہ قومی زبان بننے کا اعزاز جس زبان کو بخشا گیا، وہ کوئی اور نہیں  میری ہی بہن ہے، میری ماجائی، مَیں  غمزدہ کیوں  ہوتی؟ مگر، مَیں  غمزدہ تب ہوتی ہوں  جب میری مخالفت کے ذریعہ لوگ اپنا سیاسی قد اونچا کرتے ہیں ۔ میری مدد سے محفلوں  میں  اپنے زورِ بیان کی داد وصول کرتے ہیں  اور میری ہی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں ۔
 آپ جانتے ہوں  گے، بالی ووڈ کہلانے والی فلم انڈسٹری کو چار چاند لگانے میں  میرا اہم حصہ رہا اور اب بھی ہے مگر کتنی فلموں  کو میرے نام کا سرٹیفکیٹ دیا گیا؟ مجھے کبھی بُرا نہیں  لگا کیونکہ جو سرٹیفکیٹ دیا گیا وہ میری ہی بہن کے نام کا تھا مگر اس منافقت کے ذریعہ ایسا کرنے والوں  کا کردار سامنے آگیا کہ آپ زبانوں  کے درمیان دیوار اُٹھا رہے ہیں ۔مغل اعظم میں ، مَیں  ہندوستان نے کہا تھا: ’’نادانوں  نے مجھے زنجیریں  پہنا دیں  مگر میرے چاہنے والوں  نے اُنہیں  کاٹ پھینکا‘‘مَیں  بھی یہی کہتی ہوں  کہ نادانوں  نے مجھے پاتور میونسل کونسل کے نام کی تختی سے ہٹانا چاہا، معاملہ کلکٹر سے کمشنر اور پھر ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ پہنچا۔ اِن چار میں  سے تین جگہوں  پر ایسے لوگ تشریف فرما تھے جو نادانوں  کے ذریعہ زنجیریں  پہنانے کی کوشش کو سمجھ رہے تھے، اُنہوں  نے اُن زنجیروں  کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا۔ مقدمہ بعنوان ’’ورشا تائی بنام ریاست ِ مہاراشٹر‘‘ کا فیصلہ سامنے رکھئے، سپریم کورٹ کے جسٹس سدھانشودھولیا اور جسٹس کے وِنود چندرن نے کیا کیا؟ اُنہوں  نے نادانوں  کو اُن کی نادانی سمجھا دی اور مجھے جو زنجیریں  پہنائی جارہی تھیں  اُنہیں  کاٹ پھینکا۔ موجودہ مخالف حالات میں  کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اس طرح میری ہمنوائی کریگی اور اتنا دو ٹوک فیصلہ دیگی؟ مَیں  سپریم کورٹ کی شکر گزار ہوں ، اُس نے انصاف پروری کی مگر عدالت کے بے مثال تبصروں  کے سبب اپنا سا منہ لے کر رہ جانے والے نادان کیا اپنی نادانی سے باز آجائینگے؟ یہ سمجھنا بذات خود نادانی ہوگی!

یہ بھی پڑھئے : نیپال میں گھات لگائے بیٹھی ہے آمریت

 اوپر میرے غمزدہ ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اگر آپ دریافت کریں  کہ سب سے زیادہ غمزدہ مَیں  کب ہوتی ہوں  تو اس کا جواب دینے میں  تکلف ہوتا ہے، دانت بھی اپنے ہونٹ بھی اپنے ہیں  مگر سچائی یہی ہے کہ مجھے سب سے زیادہ غم، مجھ سے محبت کے دعویداروں  کا ہے۔ یہ مجھے کچھ نہیں  دیتے، انہوں  نے برسوں  میں  کوئی ایک لفظ بھی میری لغت میں  داخل نہیں  کیا مگر مجھ سے لیتے رہنے میں  طاق ہیں ، عزت، شہرت، دولت، مرتبہ، انعام، اعزاز، واہ واہی، تنخواہ اور ایسی ہی کوئی اور منفعت، انہیں  میرے حال کی فکر ہے نہ مستقبل کی، یہ اپنے بچوں  کو انگریزی پڑھاتے ہیں  اور میرے الفاظ ترک کرکے غلط سلط انگریزی بولنے پر نازاں  ہیں ، یہ نہ تو میرااَخبار اور میری کتابیں  پڑھتے ہیں  نہ ہی مردم شماری کے دوران زبان کے کالم میں  میرا نام لکھواتے ہیں ، یہ میری محفلوں  میں  آتے ہیں  نہ میری ترویج کیلئے کچھ کرتے ہیں ، یہ مجھے اپنے محلوں  اور گھروں  ہی سے نہیں ، شاید دل سے بھی نکال چکے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے میری حیثیت بحال کردی مگر یہ میرے نام لیوا، میری محبت کے دعویدار، میرے سبب انعام و اعزاز پانے والے، یہ کب میرا قرض اُتاریں  گے؟ 

urdu news Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK