جولائی کے اوائل میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں مکتی جودھاؤں کیلئے مختص کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک شروع کی تھی۔ اگر شیخ حسینہ نے شاہانہ رعونت اور ریاستی جبر کے ذریعہ اس احتجاج کو کچلنے کی کوشش کرنے کے بجائے ہمدردی سے طلبہ کی شکایات سنی ہوتی تو شاید انہیں اپنا سنگھاسن خالی نہیں کرنا پڑتا۔
پیر کے دن بنگلہ دیش کی اُسی فوج نے جس کے ذریعہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد عوامی بغاوت کو کچلنے کی کوشش کررہی تھیں ، جب انہیں یہ پیغام دے دیاکہ : ’’سنگھاسن خالی کرو کہ جنتا آتی ہے‘‘ تب ان کے پاس ملک سے فرار ہونے کے سوا اور کوئی راہِ فرار نہیں بچی۔عوام سول نافرمانی کی تحریک تو پچھلے کئی ہفتوں سے چلارہے تھے، پیر کے دن فوج نے عسکری نافرمانی کا اعلان بھی کردیا۔ اتوار کی نصف رات میں فوج کے سربراہ وقار الزماں نے جو حسینہ کے رشتہ دار بھی ہیں ، انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ مجوزہ ’’ڈھاکہ لانگ مارچ‘‘ کوروک دیا جائیگا۔ پیر کی صبح عوامی موڈ کا صحیح اندازہ لگاتے ہوئے تینوں افواج کے سربراہان نے حسینہ کی حکومت اور خود ان کی حفاظت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یہ فوجی بغاوت ہر گز نہیں تھی لیکن فوج نے عوامی بغاوت کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں جوکردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔ حسینہ آخری وقت تک اقتدار سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں تھیں لیکن بنگلہ دیش کی فوج نے حسینہ کواستعفیٰ نامہ لکھنے پر مجبور کردیا۔حسینہ کی قوم سے آخری بار خطاب کرنے کی تمنا بھی ان کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ فوج نے انہیں محض ۴۵؍منٹ کی مہلت دی اور کہا کہ اپنا بوریا بستر لپیٹو اور نکلو ورنہ ہم تمہیں عوامی غیض و غضب سے نہیں بچاسکیں گے۔جابر حکمرانوں کا اکثر یہی حشر ہوتا ہے۔
ابھی چند دن قبل ہندوستانی سفیر پرنئے ورما سے ایک ملاقات میں حسینہ نے دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرین طلبہ نے بنگلہ دیش کو بھی سری لنکا بنانے اور ان کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کی تھی جو ناکام بنادی گئی۔ ان کے بیان کا نصف حصہ درست اور نصف غلط ثابت ہوا۔ پیر کے دن کے ڈرامائی واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو کولمبو اور ڈھاکہ کے حالات میں کافی مماثلت نظر آئے گی۔ دو سال قبل جس بے سرو سامانی کی حالت میں سری لنکا کے صدر گوٹا بایا راجاپکشے کو اپنا محل چھوڑنا پڑا تھا ٹھیک اسی طرح حسینہ کو بھی اپنا محل(گن بھون) اور ملک دونوں چھوڑنا پڑا۔ سری لنکا کی طرح حکمراں کے فرار ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں بھی عوام نے شاہی محل پر چڑھائی کردی اور لوٹ مار مچائی۔سری لنکا کی طرح بنگلہ دیش میں بھی عوام تاناشاہ کی ذلت آمیز رخصتی پر ایسے جشن منارہے ہیں جیسے انہوں نے ملک کی آزادی کی جنگ جیت لی ہو۔ سری لنکا کی طرح بنگلہ دیش کے انقلاب کی خاص بات یہ ہے کہ تاناشاہ کا تختہ پلٹنے کے لئے کسی فوجی بغاوت یا بیرونی مداخلت کا سہارا نہیں لینا پڑا۔اس انقلاب کا ایک اور اہم پہلو ہے: کوئی ایک فرد یا لیڈر اس کی قیادت نہیں کررہا تھا اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی نے اس مزاحمت کو ہائی جیک کیا۔
مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ گواہ ہے کہ طلبہ نے ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے میں ہمیشہ پہل کی ہے۔ موجودہ انقلاب کوبھی پوری طرح طلبہ اور نوجوانوں کا انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ جس تحریک نے محض تین ہفتوں میں عوام کی بغاوت کی شکل اختیار کرلی وہ جولائی کے اوائل میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں مکتی جودھاؤں کیلئے مختص کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع کی تھی۔ اگر حسینہ نے شاہانہ رعونت اور ریاستی جبر کے ذریعہ اس احتجاج کو کچلنے کی کوشش کرنے کے بجائے ہمدردی سے طلبہ کی شکایات سنی ہوتی تو شاید انہیں یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔ ملک میں کرپشن، اقربا پروری، مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی عدم مساوات کی وجہ سے عوام کے دلوں میں حسینہ حکومت کے خلاف طویل عرصے سے بے حد بدگمانی اور برہمی پل رہی تھی۔ جب ملک کی معیشت قلانچیں بھر رہی تھی تو عوام نے حسینہ کے آمرانہ روش اور طرز قیادت کی دیگر خامیوں کو نظر انداز کردیا تھا لیکن جب لوگوں کی جیبیں خالی ہونے لگیں تو انہیں وزیر اعظم کی رعونت اور غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں کھلنے لگیں ۔ حسینہ سے بدظنی کی ایک اور اہم وجہ حزب اختلاف کے ساتھ ان کادشمنوں جیسا سلوک تھا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے سیاستداں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے بعد جمہوری اقدار کا گلا گھونٹنے لگتے ہیں ۔ حسینہ کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے۔ انہیں ملک کے کسی طبقے کے ذریعہ کیا گیا کوئی احتجاج گوارا نہیں تھا۔ جائز مطالبے کرنے والے شہریوں کو وہ بی این پی یا جماعت اسلامی کے ایجنٹ یا تخریب کار اور دہشت گرد قراردے دیتی تھیں ۔دراصل حسینہ ملک میں ون پارٹی سسٹم لاگو کرنے پر آمادہ تھیں اور قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ اور فسطائی روش ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں حسینہ جس جمہوریت کی بیخ کنی کر رہی تھیں ، بیسویں صدی کے اواخر میں انہوں نے اسی جمہوریت کے احیاء کیلئے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ارشاد کے خلاف جد وجہد کی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء بھی ان کے شانہ بہ شانہ اس جنگ میں شامل تھیں اور بنگلہ دیش میں جمہوریت کی واپسی کا کریڈٹ یکساں طور پر ان کو بھی جاتا ہے۔لیکن حسینہ نے خالدہ کو لمبے عرصے سے قید کررکھا تھا۔ (حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد خالدہ ضیا کو رہا کردیا گیا ہے)
کلاسیکی یونانی المیوں کے ہیرو (جو اکثر بادشاہ یا شہزادہ ہوتا تھا) کا زوال کسی ولین کے ہاتھوں نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی تباہی خود اس کی اپنی شخصیت کی کسی اخلاقی خامی کی وجہ سے ہوتی تھی۔ ارسطو نے اس کیلئے Hamartia کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مفہوم ہے’’ فیصلے کی غلطی۔‘‘ ہیرو کی شخصیت کی سب سے تباہ کن خامی Hubris تھی جسے ہم ’’بے انتہا غرور اورخود اعتمادی‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ حسینہ کے زوال میں بھی ان دونوں عناصر کا بھر پور ہاتھ رہا ہے۔ انہوں نے طلبہ کے احتجاج سے نمٹنے میں اپنے بیجا غرور کی وجہ سے اہم فیصلے کرنے میں فاش غلطیاں کیں ۔ ان کا خیال تھا کہ طاقت کے سامنے نوخیز احتجاجی لڑکے زیادہ دیر نہیں ٹک سکیں گے۔ انہیں ان کے عزائم اور استقلال کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔انہوں نے اپنی رعونت میں مظاہرین کو ’’رضاکار‘‘یعنی غدار وطن کا لقب دے ڈالا جو ایک تضحیک آمیز گالی تھی۔ دراصل یہ ایک جائز معاشرتی اور معاشی تحریک تھی جس کا مطالبہ یہ تھا کہ حسینہ امتیازی اور متعصبانہ کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کرکے تمام شہریوں کو سرکاری ملازمتوں میں مساویانہ موقع فراہم کریں ۔ بنگلہ دیش جب دوبارہ جلنے لگا، ڈھاکہ کی سڑکیں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہوگئیں اور ملک میں لاقانونیت اور انارکی تیزی سے پھیلنے لگی تو وزیر اعظم نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی لیکن اب دیر ہوچکی تھی۔ کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ اب حسینہ حکومت کے خاتمے کے مطالبہ میں تبدیل ہوگیا تھا۔ بچنے کا کوئی اور راستہ جب نہیں بچا تو حسینہ نے بنگلہ دیشی عوام کے عزم کے آگے ہتھیار ڈالنے میں عافیت سمجھی۔اگر انہوں نے گدی اور ملک نہیں چھوڑا ہوتا تو عوام انہیں زندہ نہیں چھوڑتے۔