• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’الیکشن سے الیکشن تک‘‘ مراطرز ِ عمل کیوں ہو؟

Updated: June 15, 2024, 1:21 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

اکثر لوگ کام کی ابتداء کو کام کی تکمیل سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہی کوتاہ فہمی نقصان اور خسارہ کا سبب بنتی ہے۔ سیاسی شمولیت کیلئے سیاسی فعالیت ضروری ہےاور سیاسی فعالیت کا مطلب سیاسی کارندہ بن کر گھومنا نہیں ہوتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جس طرح شکست کے اسباب کا جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح فتح کے اسباب کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ شکست ہی بہت کچھ نہیں  سکھاتی، فتح بھی اپنے اندر کئی درس رکھتی ہے۔ احتساب یا محاسبہ صرف ناکامی یا شکست کے پیش نظر نہیں  ہوتا، فتح و ظفر کے باب میں  بھی ضروری ہے مگر ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت نے، یہ مشق نہیں  کی۔ جس نے شکست کھائی وہ نا اُمیدی کے غار میں  دُبک گیا اور جس نے اچھی خاصی کامیابی حاصل کی وہ کامیابی کے جشن میں  ڈوب گیا۔ یہ سیاسی جماعتوں  ہی کا حال نہیں  ہے، ملک کی مختلف قوموں ، فرقوں  اور طبقوں  کی بھی کیفیت ہے بشمول مسلمان۔
  پارلیمانی انتخابات ۲۰۲۴ء کے نتائج کے تعلق سے مسلمانوں  کا ردعمل بہت خوشگوار ہے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے بعد پہلی مرتبہ اُن میں  اپنے ہونے کا احساس جاگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں  نے جن سیاسی جماعتوں  کو فتح سے ہمکنار کرنے کا عزم کیا تھا، وہ قابل ذکر کامیابی حاصل کرسکی ہیں ۔ کامیابی کا راستہ ہموار کرنے اور کامیابی میں  حصہ دار بننے کے اس اطمینان کے ساتھ وہ متحدہ ووٹنگ کی برکت کو بھی محسوس کررہے ہیں ۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے جس کے نتائج نے موسم کے بدلنے کا مژدہ نہیں  سنایا مگر یہ اعلان ضرور کر دیا کہ موسم بدلا جاسکتا ہے۔ ان نتائج پر خوشی کے شادیانے نہیں  بجائے جاسکتے تھے اس لئے نہیں  بجائے گئے مگر راحت کا سانس لیا جاسکتا تھا، سو ایسا ہی کیا گیا۔ 
 مگر، اس مضمون نگار کو زیادہ خوشی ہوتی جب راحت کا سانس لینے کے بعد راحت ِمزید کا خاکہ تیار کیا جاتا اور محلے محلے میٹنگیں  برپا کی جاتیں  جن میں  متعلقہ انتخابی حلقے کا جائزہ لیا جاتا کہ اس میں  کتنی پولنگ ہوئی، مسلم پولنگ کا فیصد اندازاً کتنا ہوا، اگرفیصد کم تھا تو کیوں  کم تھا اور اگر قابل قدر تھا تو آئندہ اسے قابل رشک بنانے کیلئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اپنی سیاسی اہمیت کو مستحکم کرنے کیلئے ایک الیکشن میں  جوش و خروش کا مظاہرہ کرنا اور پھر ہر سرگرمی کو آئندہ الیکشن کیلئے ملتوی کردینا ٹھیک نہیں ۔ جوش و خروش بیداری کا حصہ ہے مگر بیداری نہیں  کیونکہ جوش و خروش ہمیشہ عارضی ہوتا ہے، بیداری جوش و خروش کے کئی مراحل کے بعد اپنی موجودگی کا ثبوت دیتی ہے اس لئے عموماً عارضی نہیں  ہوتی۔ مسلمانوں  کو جوش و خروش سے بیداری تک کا سفر طے کرنے کی کوشش میں  کوئی کسر باقی نہیں  رکھنی چاہئے۔ 
 یہاں  چند سوالات میرے ذہن میں  آتے ہیں ۔ کیا وہ نوجوان جو مساجد کے باہر ٹیبل لگا کر انتخابی فہرست میں  درج کروانے کی قابل تعریف کوشش کررہے تھے، اُنہوں  نے دفتر سمیٹ دیا؟ کیا اب اُن کا دفتر تب ہی کھلے گا جب آئندہ الیکشن کا اعلان ہوگا؟ کیا وہ تمام شہری جن کے نام انتخابی فہرست سے غائب تھے اور جو اپنا نام نہ دیکھ کر یا حق رائے کا استعمال نہ کرکے مایوس تھے، اب آئندہ الیکشن پر ہوش میں  آئینگے؟ کیا جنہوں  نے نام ہونے کے باوجود مصروفیت یا بے دلی کے سبب ووٹ نہیں  دیا، اُنہیں  اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائیگا اور اُن کی ذہن سازی نہیں  کی جائیگی؟ نئی عمر کے وہ افراد جو عمر کے اعتبار سے ووٹ دینے کی منزل میں  آچکے ہیں  مگر اب تک اپنا نام رجسٹر نہیں  کروا پائے، کیا وہ ہنوز  غفلت میں  پڑے رہیں  گے جبکہ ووٹر آئی ڈی کارڈ صرف ووٹ دینے کیلئے نہیں ، ایک اہم دستاویز کے طور پر بہت سے معاملات میں  معاون ہوتا ہے؟ 
 سوالات اور بھی ہیں ، مثلاً: کیا مسلمانوں  نے وہ عرضداشت تیار کرلی ہے جو اُن کے ووٹوں  سے جیتنے والے اُمیدواروں  کے سامنے پیش کی جانی چاہئے جس میں  متعلقہ حلقے کے مسائل پر مبنی مطالبات ہوں ؟ کیا اپنے نمائندوں  کو بلا کر اُنہیں  مسلم مسائل سے واقف کرانے کی کوشش شروع کردی گئی ہے؟ کیا منتخب اُمیدواروں  کے ساتھ میٹنگ کی کوشش ہورہی ہے تاکہ اُنہیں  مساجد کی زائد ایف ایس آئی، مدارس مخالف کارروائیاں ، ذبیجہ کے مسائل، مسلم طلبہ کی (پری اور پوسٹ میٹرک) اسکالرشپ، مسلم نوجوانوں  کی ملازمت، روزگار، کاروبار اور غیر منظم زمرہ کی صنعتوں  کے مسائل، ہجومی تشدد اور بلڈوزر سیاست سے پوری قوم پر پڑنے والے منفی نفسیاتی اثرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تئیں  حساس بنایا جاسکے؟ 
   کیا یہ سب نہ کرتے ہوئے، ذہن کے کسی گوشے میں  یہ بات ہے کہ اپنے محبوب رکن پارلیمان کو، جس کیلئے ہم نے پُرجوش ووٹنگ کی اور اُسے کامیابی سے ہمکنار کیا، کسی مشاعرہ میں  بلایا جائیگا، کسی جلسے میں  مدعو کیا جائیگا، تقسیم انعامات کی کسی تقریب کیلئے زحمت دی جائیگی یا ایسے ہی کسی اور موقع پر یاد کیا جائیگا؟ تب تک تو محبوب و محترم رکن پارلیمان صاحب بھول بھی چکے ہوں  گے کہ اُن کیلئے مسلم محلوں  میں  کیسا جشن کا ماحول تھا، نوجوان کتنے مستعد تھے، کس طرح دوڑ دوڑ کر رائے دہندگا ن کو گھروں  سے نکالنے کیلئے کوشاں  تھے، کتنے کاروباریوں  نے دکانیں  دو ڈھائی گھنٹوں  کیلئے یا پورے دن کیلئے بند رکھی تھیں  تاکہ پولنگ سے محروم نہ رہ جائیں ، بزرگوں  نے کتنی اُمیدوں  سے ووٹ دیا تھا، خواتین گھر کا کام کاج چھوڑ کر کس طرح جوق در جوق پولنگ بوتھوں  کی جانب رواں  تھیں  اور ہر خاص و عام نے ملک کے سیاسی ماحول میں  تبدیلی کیلئے کتنی دُعا کی تھی! 
 ٹویٹر، فیس بک، انسٹا گرام اور وہاٹس ایپ کے اس دور میں  جب پیغام رسانی کیلئے ایک منٹ کی تاخیر نہیں  کی جاتی، اپنے نمائندہ تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے اگر اب تک سوچا نہیں  گیا ہے اور مسائل و مطالبات سے واقف کرانے کیلئے خاص ملاقات یا میٹنگ کا خاکہ تک تیار نہیں  کیا گیا ہے تو یہ ٹھیک نہیں  ہے۔ اس مضمون نگار کے خیال میں  یہ کوشش ہونی چاہئے، کوئی مشاعرہ یا جلسہ جب ہوگا تب ہوگا۔ اُس وقت الگ ماحول ہوتا ہے۔ وہ ماحول مسائل کے حل میں  معاون نہیں  ہوتا۔ وہ فوٹو گرافی اور سیلفی کیلئے سازگار ہوتا ہے۔  
 بیشتر مسلم رائے دہندگان ووٹ تو دے دیتے ہیں ، مسائل کے حل کیلئے اپنے نمائندہ کی مدد لینے کی فکر نہ کرکے ووٹ کی قیمت وصول نہیں  کرتے۔ قیمت وصول کرنا ٹھیک نہ لگتا ہو تو اس سے صرفِ نظر کیجئے مگر رابطہ تو رکھئے، اپنے احساسات و جذبات سے واقف تو کرائیے، اُسے یہ تو بتائیے کہ اُس کی کامیابی کا راستہ ہموار کرکے آپ نے اُس کے ساتھ حسن سلوک ( احسان پڑھئے) کیا ہے۔ 
 الیکشن کے بعد سناٹا نہیں  ہوتا، کام شروع ہوتا ہے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK