Inquilab Logo Happiest Places to Work

مولانا آزاد اور سردار پٹیل کو رکشے میں دیکھا ہے؟

Updated: April 28, 2025, 3:12 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

کلونت رائے کی کتاب میں یہ تصویر موجود ہے۔ دراصل فوٹو گرافی کو کبھی بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ بھی تاریخ نویسی کا ایک اسلوب ہے جس میں تصویر کے ذریعہ تاریخ رقم کی جاتی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 مشکل وقت میں  تاریخ حوصلہ دیتی ہے۔ حال کی تاریخ جب مستقبل میں  لکھی جائے گی تو حال ماضی کی تاریخ بن چکا ہوگا۔ آج بغیر کسی شعوری کوشش کے یہ تصویر سامنے آگئی۔ جس کتاب سے یہ تصویر نکل آئی اس کا نام Visual Archives of Kulvant Rai ہے۔ اسے آدتیہ آرہہ نے مرتب کیا ہے۔ تصویر کے اس خزانے کو نیشنل گیلری آف ماڈرن آرٹ، نئی دہلی اور انڈیا فوٹو آرکائیو فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے۔ کلونت رائے ۱۹۱۴ء میں  لدھیانہ میں  پیدا ہوئے اور۱۹۸۴ء میں  دہلی میں  انتقال کیا۔ دہلی کے وگیان بھون میں  نا وابستہ تحریک کی ساتویں  کانفرنس کی تصویروں  کو قید کرتے ہوئے انہوں  نے زندگی کی آخری سانس لی۔ کلونت رائے کی تصویر کشی کا زمانہ لاہور سے شروع ہوتا ہے، جہاں  انہوں  نے ایک مقامی اسٹوڈیو میں  کام کیا۔ بعد کو انڈین ایئر فورس سے وابستہ ہوئے۔ نیشنل گیلری آف آرٹ نئی دہلی کے اس وقت کے ڈائریکٹر پروفیسر راجیو لوچن نے پیش لفظ میں  کلونت رائے کی تصویروں  اور ان کی ترتیب نمائش کے سلسلے میں  جس جوش و جذبے کا اظہار کیا ہے وہ اس ادارے کے تعلق سے ایک اہم واقعہ ہے۔ 
 راجیو لوچن ، کلونت رائے کو ایک غیر معمولی اور ہمہ جہت فوٹوگرافر کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ ساتھ ہی انہوں  نے کلونت رائے کو فری لانس فوٹو جرنلسٹ کا نام بھی دیا ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کلونت رائے کی تصویروں  کو تاریخ کے مآخذ کے طور پر دیکھا تھا۔ راج موہن گاندھی نے بھی کلونت رائے کے ذریعے کھینچی گئیں  تصویروں  کو تاریخ کو سمیٹنے اور اسے قید کرنے کا نام دیا ہے۔ صحافی رنجن رائے نے تصویروں  کو ہزار الفاظ کی صورت میں  دیکھتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تصویریں  ہیں  اور ہزار تعبیرات کے لیے کھلی ہوئی ہیں ۔ رنجن رائے ایک باشعور صحافی کے طور پر کلونت رائے کے کیمرے سے کھینچی گئی ان تصویروں  کو دیکھتے ہیں  اور انہیں  محسوس ہوتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ کی اپنی جمہوریت ہے یعنی آپ تصویروں  کو دیکھ سکتے ہیں ، لیکن کچھ کہتے ہوئے بہت غور و فکر کی ضرورت پڑے گی کہ واقعی تصویروں  کے آس پاس کی دنیا کیسی تھی اور کیا ہو رہا تھا۔ 
 آدتیہ آریا نے اپنے نوٹ میں  کلونت رائے اور فوٹوگرافی کے تعلق سے اہم نکات کی جانب اشارے کیے ہیں  ۔ تصویریں  جھوٹ نہیں  بولتیں ۔ کیمرے کا رخ سیاست سے اس وقت تو آزاد ہوتا ہے لیکن بعد کو سیاست شامل ہو جاتی ہے۔ کلونت رائے کی تخلیقیت تصویروں  کے ذریعے جس طرح ظاہر ہوئی ہے وہ ہماری سیاسی سماجی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم باب ہے۔ تحریک آزادی کے مسائل اور اس دور کی پیچیدگیوں  کا بوجھ جس طرح اٹھایا ہے اسے دیکھنے اور محسوس کرنے کے لیے ایک تہذیب کی ضرورت ہے۔اس دور میں  فوٹو جنرلزم ابتدائی مرحلے میں  تھی۔ دوسری جنگ عظیم، قحط ِ بنگال اور انگریزی حکومت کی سنسر شپ نے فوٹوگرافی کو بہت متاثر کیا۔ کلونت رائے نے مشکل حالات میں  بھی تصویر کشی کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایئر فورس کے بعض دوستوں  نے انہیں  موافق مواقع فراہم کئے۔ کم وبیش ۳۰؍ سال تک ان کے ذریعے کھینچی گئیں  تصویریں  نگاہ سے اوجھل رہیں ۔ کتاب ’’ہسٹری آف آرکائیو فاؤنڈیشن‘‘ میں  ان تصویروں  کو دیکھا جا سکتا ہے۔ 
  کلونت رائے کی تصویروں  کی یہ کتاب تاریخی دستاویز ہے۔ یہ تصویریں  اپنی زبان میں  بہت کچھ کہتی ہیں ۔ تصویروں  کے ساتھ نیچے اشخاص کے نام اور تاریخیں  بھی درج ہیں ۔ کہیں  کہیں  مقام اور تاریخ نہیں  ہے مگر وہاں  بھی تصویر اپنی کسی جگہ اور تاریخ کا اعلان کرتی ہے۔ یہ کتاب مختلف نوٹس اور تفصیلات کے ساتھ تصویروں  کو فلم کے طور پر پیش کرتی ہے۔ سیاسی اور تہذیبی زندگی کی جھلکیاں  دراصل مستقبل کی تعمیر کا وسیلہ بھی ہیں ۔ ایک شخص اپنے کیمرے سے اہم ترین مواقع کو تصویروں  کے ذریعہ جس طرح قید کرنے میں  کامیاب ہوا اس کی داد اُسے ہمیشہ ملتی رہے گی۔ گاندھی، نہرو، سردار پٹیل، خان عبدالغفار خان، گووند ولبھ پنت، راجندر پرشاد اور دوسری شخصیات کی تصویریں  تاریخ کو حال کے ساتھ وابستہ کر دیتی ہیں ۔ تصویروں  میں  کہیں  مسکراہٹ ہے تو کہیں  سنجیدگی۔ بعض تصویریں  میرؔ کے شعر کی یاد تازہ کر دیتی ہیں :
 نکلی ہیں  اب کے کلیاں  اس رنگ سے چمن میں  
سر جوڑ جوڑ جیسے مل بیٹھتے ہیں  احباب 
 گاندھی، نہرو اور پٹیل ایک ساتھ جب دکھائی دیتے ہیں  تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاست نے تاریخ کو کتنا دھندلا کر دیا ہے۔ نہرو کی کئی تصویریں  خان عبدالغفار خان کے ساتھ ہیں ۔ ایک تصویر ایسی بھی ہے جس میں  رکشے پر آگے مولانا ابو الکلام آزاد بیٹھے ہیں  اور پیچھے دوسرے رکشے پر سردار پٹیل ہیں ۔ یہ موقع ۱۹۴۶ء میں  شملہ کانفرنس کا ہے۔ ان دو شخصیات کو رکشے میں  آگے پیچھے دیکھ کر کتنا حوصلہ ملتا ہے۔ فوٹو جرنلزم نے ہماری سما جی اور سیاسی زندگی کو کتنا متاثر کیا ہے، اس کا جواب کلونت رائے کی فوٹو جرنلزم کی روشنی میں  بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔ ایک شخص کم و بیش ملکوں  ملکوں  سفر کرتا ہے اور ہر جگہ سے کچھ نہ کچھ اپنے لئے حاصل کر لیتا ہے۔ صحافت اب کتنی آسان ہو گئی ہے۔ فوٹو جنرلزم دراصل صحافت کی ایک خاموش تہذیب کا نام ہے۔کلونت رائے کی تصویریں  قوم عمارت کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اختلافات کی خوبصورت یکجائی کی نشانیاں  بھی ہیں  ۔سیاہ اور سفید رنگ کی تصویریں  قومی زندگی کہ خاکوں  کو مختلف رنگوں  سے مزین کرنے کی تاریخی کاوش بھی ہے۔۔کلونت رائے نے دیہی زندگی کو بھی تصویروں  میں  پیش کیا ہے۔جن عام انسانوں  کی تصویریں  دیہی زندگی کے ساتھ کیمرے میں  قید ہوئی ہیں  انہیں  اب کوئی نہیں  جانتا۔یہ عام انسان زندگی عام انسانی صورتوں  کے ساتھ کتنی روشن دکھائی دیتی ہے۔۔دیہی زندگی رفتہ رفتہ صنعتی فتوحات سے قریب ہو رہی تھی،یہ قربت تھی ان تصویروں  میں  دیکھی جا سکتی ہے۔گاندھی جی نے کملا نہرو میموریم ہاسپٹل کا افتتاح کیا تھا اس موقع کی تصویر بھی اس آ رٹ گیلری میں  موجود ہے۔مہاتما گاندھی کی شہادت کی پہلی برسی پر سردار پٹیل نے مجمعے سے جو خطاب کیا تھا اس موقع کی تصویر بھی یہاں  دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ تصویریں  ایسی بھی ہیں  جو نیگیٹو کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے دھندلی تو نہیں  ہوئیں  مگر یہ سیاہ اور گنجلک لکیروں  کی وجہ سے آرٹ کا کوئی اور نمونہ بن گئی ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK