• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ترقی یافتہ ہندوستان بنانے میں نوجوانوں سے امیدیں

Updated: August 02, 2024, 1:23 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

کیا حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں مل کر عوام کو بھوک، بیروزگاری، بدعنوانی سے نجات دلانے کی راہ نہیں نکال سکتے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

وزیر خزانہ سیتا رمن نے ۲۵ء-۲۰۲۴ء کا جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں  ۲؍ لاکھ کروڑ کے خرچ سے تین منصوبوں  کو پورا کرنے کا وعدہ ہے جس سے ۴ء۱؍ کروڑ نوجوانوں  کے روزگار حاصل کرنے اور ان کی صلاحیت و ہنرمندی میں  اضافہ ہونے کی امید ہے۔ یہ اچھا خواب ہے اور سیاسی مفادات سے بلند ہو کر اس کا استقبال کیا جانا چاہئے۔ البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ خواب خواب ہی رہے گا یا اس کی تعبیر بھی سامنے آئے گی۔ اس مقصد کے لئے وزیر خزانہ کے پیش کئے ہوئے تمام منصوبوں  اور بیان کی گئی تمام ترجیحات کا ذہن میں  ہونا ضروری ہے۔ ان کا جائزہ لینے سے بعض حیران کن باتیں  سامنے آتی ہیں ۔ مثال کے طور پر ’انٹرن شپ پلان‘ کے تحت ملک کی ۵۰۰؍ کمپنیوں  میں  ایک کروڑ نوجوانوں  کو ایک سال تک انٹرن شپ کرانے کا وعدہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت ہر کمپنی کو ایسے چار ہزار لوگوں  کو عارضی روزگار دینا ہوگا جو برسرکار نہیں  ہیں ۔ یہ لوگ سال بھر کمپنی میں  رہیں  گے انہیں  وہ تنخواہ ملے گی جو عارضی ملازموں  کو دی جاتی ہے۔ ان کو ملنے والی تنخواہ سے صرف ۱۰؍ فیصد سی ایس آر (کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی) منہا کیا جائے گا۔ ملک میں  جو دوسرے قوانین نافذ ہیں  ان کے مطابق ہر کمپنی کو کم از کم ۲؍ لاکھ سالانہ دینا ہی ہوگا اس سے کم کی صورت میں  عدالت کے چکر کاٹنے ہوں  گے۔ اس سلسلے میں  جو مزید سوالا ت ہیں  وہ بھی نظرانداز نہیں  کئے جاسکتے مثلاً انٹرن شپ کے سبب کمپنیوں  پر جو بوجھ بڑھیں  گے وہ کمپنی اور حکومت کس طرح آپس میں  تقسیم کرے گی اور یہ کہ ایک سال کے بعد انٹرن شپ کرنے والوں  کی یافت کی کیا صورت ہوگی؟
 صلاحیت و ہنر مندی میں  اضافہ کرنے کی تجویز یا وعدے کے تحت پانچ برسوں  میں  ۲۰؍ لاکھ لوگوں  کو ایسے ہنر سکھانے کا خواب دیکھا گیا ہے جو صنعتوں  کی ضرورتوں  کو پورا کریں  گے۔ اس سلسلے میں  دو اہم سوال یہ ہیں  کہ کون سا ایسا کام یا صنعت ایسی ہے جس میں  صلاحیت و ہنرمندی رکھنے والے کی ضرورت نہیں  ہے؟ کیا صرف ۲۰؍ لاکھ لوگوں  کو تربیت دیا جانا یا ہنرمند بنایا جانا کافی ہے؟ ممکن ہے بتدریج یہ کام کیا جائے۔ اچھا ہے مگر جو لوگ برسرکار ہیں  مگر ہنرمند، باصلاحیت یا مخلص و مستعد نہیں  ہیں  ان کو ہنرمند و مستعد بنانے کی کیا صورت ہوگی؟ سوالات بہت ہیں  اور یقیناً وزیر خزانہ اور حکومت کے علم میں  بھی ہوں  گے مگر عام لوگوں  کو انتظار رہے گا مزید ایسے اقدام کا جن سے ان کی بے روزگاری ختم ہوسکے یا یافت کی نئی نئی راہیں  کھلیں  البتہ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ بجٹ ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کی سمت ایک قدم ہے۔ لیکن اگر اس سمت میں  مزید اقدامات نہیں  کئے گئے تو سمجھا جائے گا کہ چونکہ پارلیمانی انتخابات میں  بیروزگاری کی شکایت ہر طرف سے کی گئی تھی اس لئے بجٹ کو بیروزگاری کی شکایت کرنے والوں  کا منہ بند کرنے کے مقصد سے ایک خاص شکل میں  پیش کیا گیا ہے۔
 بیروزگاری کے علاوہ برسرکار لوگوں  کو بھی کچھ شکایتیں  تھیں ۔ بجٹ میں  ان شکایتوں  کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے۔ اسٹینڈرڈ ڈیڈکشن کی رقم پچاس ہزار سے بڑھا کر پچھتر ہزار کرنا یا ٹیکس سلیب میں  تبدیلی کیا جانا اہم قدم ہے اس سے کم کمائی کرنے یا ملازمت پیشہ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ بھی اہم قدم ہے کہ شہروں  میں  رہنے والے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں  کو گھر کے واسطے حکومت ۲ء۲؍ لاکھ کروڑ کی مدد کرے گی۔ اس مقصد سے حکومت جو خرچ کرے گی اس کا کل اندازہ ۱۰؍ لاکھ کروڑ ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ حکومت نے ہندوستان کے مشرق میں  واقع ریاستوں  کو امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ شاید اس کی ضرورت بھی تھی لیکن بوالعجبی یہ ہے کہ بہار، جھارکھنڈ، بنگال، اُدیشہ کے ساتھ آندھرا پردیش کو بھی مشرقی ریاستوں  میں  شامل کیا گیا ہے۔ آندھرا تو صدیوں  سے جنوبی ہندوستان میں  شامل یا اس کا حصہ سمجھا جاتا ہے کیا اب تلنگانہ کے اس سے الگ ہونے یا یہاں  چندر بابو نائیڈو کی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ ریاست مشرقی ہندوستان کی ریاستوں  جیسی ہوگئی ہے؟ آندھرا پردیش اور بہار کے لئے جس خصوصی درجے کا اعلان کیا گیا ہے یا یہاں  ٹورزم (سیاحت) کوریڈور اور انڈسٹریل نوڈز میں  سرمایہ کاری کے لئے جو منصوبے بنائے گئے ہیں  ان کے لئے عالمی مالیاتی اداروں  سے قرض لینا ضروری ہوگا مگر ایسے تمام قرض کڑی شرطوں  پر ہی ملتے ہیں ۔
 مختصر یہ کہ ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب دیکھنا، اس میں  نوجوانوں  سے امیدیں  وابستہ کرنا اور جن سے امیدیں  وابستہ کی گئی ہیں  ان کو درپیش مشکلات کو دور کرنا یا دور کرنے کا عزم کرنا تو بہت قابل قدر ہے مگر عملاً اس راہ میں  جو دشواریاں  حائل ہیں  یا ہوسکتی ہیں  ان پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں  تائید برائے تائید اور مخالفت برائے مخالفت کی ایک رو چل پڑی ہے۔ اچھے سے اچھے منصوبوں  کی مخالفت اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ اس کو حزب اقتدار یا حزب اختلاف نے پیش کیا ہے۔ معیشت، دفاع، صحت اور تعلیم کے بارے میں  خاص طور سے یہ رویہ صحیح نہیں  ہے۔ کم از کم ان کو نظریاتی یا علاقائی اختلافات سے اٹھ کر دیکھنا ضروری ہے۔ اسی بجٹ کی مثال لیجئے اگر اس میں  اچھی باتیں  ہیں  ملک کو ترقی یافتہ ملک بنانے کی سمت اقدامات کرنے کا عزم ہے تو حزب اختلاف ان سے اتفاق کیوں  نہیں  کرتی؟ اور اگر اس بجٹ میں  کچھ باتیں  مضحکہ خیز ہیں  جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے اور حزب اختلاف ان کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو حکومت اس کو اپنے وقار اور انا کا مسئلہ کیوں  بنائے ہوئے ہے؟ کیا حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں  مل کر عوام کو بھوک، بیروزگاری، بدعنوانی سے نجات دلانے کی راہ نہیں  نکال سکتے؟ اگر نہیں  نکال سکتے تو دونوں  اپنے فرائض کی انجام دہی میں  کوتاہی کر رہے ہیں ۔
 نوجوانوں  میں  بیروزگاری اور بڑوں  بزرگوں  میں  جان و مال کا عدم تحفظ کا دور کیا جانا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کو حل کرنا حزب اقتدار کیلئے بھی ضروری ہے اور حزب اختلاف کیلئے بھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK