• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملبے کے نیچے دفن ہیں کتنی کہانیاں!

Updated: July 27, 2024, 1:29 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

یہ مضمون نہیں، ایسا خط ہے جو اہل غزہ کے نام لکھا گیا ہے۔ غزہ کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، تباہی، تاراجی، اموات، اسپتالوں کی کسمپرسی، لہولہان حال اور غیر یقینی مستقبل۔ خدا رکھے، کوئی نہیں جانتا کہ بچی کھچی آبادی کب تک باقی رہے گی!

Photo: INN
تصویر:آئی این این

برادرانِِ  غزہ، ہم شرمندہ ہیں ، معذرت خواہ ہیں  کہ ہم آپ کیلئے کچھ نہیں  کرسکے۔ اکتوبر سے یہ سلسلہ جاری ہے، آپ کے شہروں  کو تباہ کیا جارہا ہے، مکانات اور عمارتیں  بمباری کی زد پر ہیں ، اسکولوں  اور اسپتالوں  سے غیر انسانی انتقام لیا جارہا ہے، آپ سب کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں  سے محروم کردیا گیا ہے، وہ بستیاں  اُجڑ چکی ہیں  جن میں  مکانات تھے، مکانوں  میں  لوگ تھے اور لوگوں  کی آنکھوں  میں  بہتر زندگی کے خواب تھے مگر اب مکانات کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے، مکیں  یا تو فوت ہوچکے ہیں  یا پناہ گزیں  کیمپوں  میں  ہیں  یا اسپتالوں  میں ۔ اُن کی آنکھوں  میں  خواب کی جگہ یا تو خشک ہوچکے آنسوؤں  کا ہلکا سا نشان ہے یا گہرا سناٹا ہے۔ جن آنکھوں  نے بے شمار اہل وطن کی موت کو بہت قریب سے دیکھا ہو، وہ اپنے بچے کھچے خوابوں  کے ساتھ جینا بھی چاہیں  تو کیسے جی سکتے ہیں ؟
  برادران اہل غزہ، آپ پر مصیبت نہیں  مصیبتیں  اور قیامت نہیں  قیامتیں  ٹوٹی ہیں ، ہمیں  اسرائیلی جارحیت اور سفاکی کا علم ہے، روزانہ کی خبروں  سے آپ کے بارے میں  بہت کچھ معلوم ہوتا رہتا ہے اس کے باوجود ہم جانتے ہیں  کہ ہم کچھ نہیں  جانتے، بس ایک اندازہ ہے کہ جتنے گھر مسمار ہوئے اُن سب کے متوفین کے پاس سنانے کیلئے درجنوں  کہانیاں  رہی ہونگی کہ اُنہوں  نے کس کو کس حال میں  دیکھا، کس کی چیخیں  سنیں ، کب تک سنتے رہے، اُن کی راتیں  کیسی تھیں ، اُن کے دن کیسے تھے، کس میں  جینے کی کتنی چاہ تھی، کون اپنے مستقبل کیلئے کیسی جدوجہد کررہا تھا، کون اپنی ماں  کا دُلارا تھا، کون اپنے باپ کا پیارا تھا، وہ کون تھا جس کے والدین اور اساتذہ کو اُس سے بڑی اُمیدیں  تھیں ، جو ذہین ، بہادر اور انسانیت کا بیش قیمت سرمایہ تھا۔ کاش ہم ایسی ہزاروں  کہانیاں سن پاتے، ایک کہانی جو حال ہی میں   پڑھی، اُس کا راوی ۳۰؍ سالہ اشرف السوسی ہے۔ وہ کہتا ہے:
 ’’وہ ہر دل عزیز تھا، اُس کا مزاج نسیم سحر جیسا سبک تھا۔ مجھے اتنا چاہتا تھا کہ والد صاحب کی جیب سے پیسے نکال کر مجھے دے دیا کرتا تھا۔ اُس دِن، اُس کے ہم جماعت گھر آئے اور اُسے ساتھ لے کر اسکول کی جانب بڑھے۔ وہ تمام ہم جماعت اس طرح خوش گپیاں  کرتے اور کھیلتے کودتے جارہے تھے جیسے تتلیاں  باغ میں  رقصاں  رہتی ہیں ۔ وہ بے خبر تھے کہ فضا میں  اسرائیلی جنگی جہاز منڈلا رہے ہیں ۔ تجربہ کار لوگ ہی سمجھ سکتے تھے کہ وہ جہازوں  کی گڑگڑاہٹ نہیں ، موت تھی جو اپنا شکار تلاش کررہی تھی۔ اتنے میں  ایک کار اُن کے قریب آئی، اسکول جانے والی اِن تتلیوں  کو نہیں  معلوم تھا کہ عنقریب وہ کار نشانہ بنے گی۔ معاً ایک راکٹ اُس کار پر گرا اور میرا بھائی طارق کئی میٹر اوپر اُچھل کر زمین پر گر پڑا، چونکہ جری تھا اس لئے قلابازی کھانے کے باوجود ڈرا نہیں ، لوگوں  نے کہا کہ ایمبولنس آرہی ہے اُس میں  سوار ہوجاؤ، اُس نے کہا مجھے کچھ نہیں  ہوا ہے۔ 
 ایمبولنس آئی اور اس کا عملہ کار سے لاشیں  نکالنے لگا۔ مگر ابھی وہ سو میٹر بھی نہیں  چلا ہوگا کہ اُسے اچانک کچھ ہوا، اُس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور گر پڑا۔ وہ شہید ہوچکا تھا۔ مَیں  اپنے اسکول جانے کیلئے بس اسٹاپ پر تھا تبھی بہن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کچھ ہوا ہے، جاؤ اور دیکھو۔ مَیں  اُس جگہ پہنچا مگر طارق نظر نہیں  آیا۔ اسکول پہنچا تو تھوڑی دیر بعد چچا آئے اور کہا گھر چلو۔ اُنہوں  نے مجھے اپنی کار میں  بٹھالیا اور ڈرائیور سے کہا کہ ریڈیو بند کردو۔مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ چچا کو خبروں  کا چسکہ تھا۔ ہم گھر پہنچے تو باہر کافی مجمع تھا، مَیں  اندر گیا، والد صاحب کو دیکھا، وہ کرسی پر بیٹھے رو رہے ہیں ، اُن کے ہاتھ میں  طارق کی تصویر تھی۔ مَیں  چیخا، ابو، طارق شہید ہوگیا؟ ابو نے صرف اتنا کہا: خدا اُسے غریق رحمت فرمائے!‘‘
 عزیزانِ غزہ، یہ تو ایک طارق کی کہانی ہے، ایسے ہزاروں  طارق یا کسی اور نام کے بچے، نوعمر، نوجوان اِس دُنیا کو آنکھ بھر کر دیکھے بغیر رخصت ہوگئے، ہم سوچتے ہیں  تو ذہن ماؤف ہوجاتا ہے کہ خاندان کے خاندان موت کے منہ میں  دھکیل دیئے جانے کے بعد کس پر کیا گزری ہوگی، کس نے کس پر آنسو بہائے ہونگے، کس نے کس کے جنازے کو کندھا دیا ہوگا، کس نے کس کاجنازہ پڑھا ہوگا، سخت حیرت اس بات پر ہے کہ پوری دُنیا مل کر بھی ایک اسرائیل کو جنگ سے باز رکھنے میں  کامیاب نہیں  ہوئی، ایسی دُنیا اہل غزہ کی شہادتوں  پر آنسو بہائے نہ بہائے، اسے اپنی سخت ترین ناکامی پر آنسو ضرور بہانا چاہئے کہ لامحدود وسائل کے باوجود اُس کے پاس کچھ نہیں  ہے، اگر کچھ ہو بھی تو غیرت اور ضمیر تو ہرگز نہیں  ہے۔
  اس بے غیرتی اور بے ضمیری کے مظاہر کو آپ سے بہتر کون جانتا ہے، آپ روزانہ اپنی آنکھوں  سے اس کے مظاہر دیکھتے ہیں ، حالات سے لوہا لینے اور اپنے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹنے کی آپ کی جرأت کو اِس وقت ساری دُنیا سلام کررہی ہے سوائے اُن لوگوں  کے جن میں  جنگ روکنے کی طاقت ہے، صلاحیت ہے مگر نیت نہیں  ہے۔ چونکہ نیت نہیں  ہے اس لئے توفیق نہیں  ہے۔ 
 ہم سوچتے ہیں  تو روح کانپ جاتی ہے۔ یقیناً اِس دُنیا میں  کروڑوں  امن پسند لوگ ہیں  جو طاقت کے اس بے شرمانہ استعمال کے سبب برہم ہیں  مگر اُن کے اختیار میں  سوائے ہمدردی کے کچھ نہیں  ہے ، بلاشبہ، ہماری ہمدردی سے آپ کے حالات میں  رتی برابر بھی فرق نہیں  آئیگا اِس کے باوجود ہمدردی کا یہ جذبہ ہمیں  عزیز ہے اور اسی کے تحت ہم روزانہ فلسطین سے آنے والی خبروں  کا مطالعہ کرتے ہیں ، ویڈیو دیکھتے ہیں  اور آپ کے غم میں  آنسو بہاتے ہیں ۔ ہمیں  ہر وہ شخص اچھا لگتا ہے جو آپ کا ہماری طرح ہمدرد ہے اور کسی نہ کسی سطح پر، خواہ دل ہی دل میں ، آپ کی مزاحمت پر زندہ باد کہتا ہے۔ 
 ہمدردی کے اسی رشتے کے تحت ہم نے ’’الجزیرہ‘‘ پر مُرم حُمید کا وہ خط پڑھا جو اُس نے اپنے بیٹےکی پہلی سالگرہ پر لکھا ہے۔ اس کے بعض جملے اتنے درد انگیز ہیں  کہ دل کانپ اُٹھا، بالخصوص یہ جملہ کہ ’’تمہاری پیدائش سے کئی دن پہلے مَیں  نے تمہارے لئے خوبصورت اور مہین کپڑے، نرم اور گرم بستر اور تمہیں  گرمی سے بچانے کیلئے ایک ایئر کنڈیشنر خریدا تھا مگر اب ان میں  سے کوئی چیز میرے پاس نہیں  ہے، سب ملبے کے نیچے دفن ہوچکا ہے۔‘‘ 
 اس ماں  کی آنکھوں  میں  اُمیدوں  کے جگنو ہیں  مگر وہ یہ کہے بغیر نہیں  رہتی کہ ’’بیٹے، مَیں  تمہارے مستقبل کی بابت کچھ نہیں  کہہ سکتی!‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK