• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’منموہن کیسے تھے؟‘ بمقابلہ ’وہ کیسے نہیں تھے!‘

Updated: December 29, 2024, 1:43 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

اگلے وقتوں کے وزرائے اعظم اگلے وقتوں ہی کی خوبیوں اور قدروں کے حامل تھے۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا شمار بھی انہی میں ہوگا بلکہ وہ اس کی ارفع مثال تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

منموہن سنگھ پر اب تک کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بیشتر اخبارات میں  صفحہ در صفحہ منموہن سنگھ کی شخصیت اور خدمات پر مضامین اور رپورٹیں  شائع ہوئی ہیں  تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ وہ کیسے تھے۔ مگر، ان کالموں  میں  یہ بتانے کی کوشش کی جائیگی کہ وہ کیسے نہیں  تھے۔ 
 سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، نئے ہندوستان کے نمائندہ نہیں  تھے۔ وہ پرانے ہندوستان کے لیڈر تھے۔ اُنہو ں نے جوڑنے کی بات کی توڑنے کے بارے میں  وہ سوچ بھی نہیں  سکتے تھے۔ اگر اُن کی تقاریر میں  مذہب کا ذکر یا حوالہ آیابھی ہے تو اس کا مقصد آبادی کے کسے گروہ یا فرقے کو مطعون کرنا اور بقیہ آبادی کو اُس کے خلاف گمراہ کرنا نہیں  تھا۔ نئے ہندوستان کا ایسا بالغ شہری، جس نے ابھی ابھی عمر کی ۱۸؍ ویں  بہار دیکھی ہے، وہ ۲۰۱۴ء میں  فقط ۱۰؍ سال کا تھا۔ اُس نے عنفوان شباب میں  ایسے دور میں  قدم رکھا جس میں  نفرت گھولی گئی تھی۔ اب وہ جو کچھ بھی سن رہا ہے وہ اُس کیلئے نیا اور حیرت انگیز ہے مگر ماضی میں  ہندوستانی قیادت ایسی ہی ہوا کرتی تھی جیسے منموہن سنگھ تھے، یہ الگ بات کہ منموہن سنگھ اُس قیادت کی نہایت ارفع مثال تھے۔ 
 منموہن سنگھ میں  ’’بہادری‘‘ نہیں  تھی اور بہت تیز آواز میں  کچھ کہنا اُس کے بس کا نہیں  تھا۔ اپنی تقریروں  میں  اُنہوں  نے اپنا نام لے کر (توصیفی انداز میں ) کچھ نہیں  کہا۔ اُنہوں  نے کوئی ایسا سوٹ بھی کبھی نہیں  پہنا جس پر اُن کا نام طلائی دھاگوں  سے لکھا ہوا ہو۔ انہوں  نے کبھی اپنے بارے میں  یہ نہیں  کہا کہ اُن کا تعلق بہت غریب خاندان سے ہے، اسی طرح کبھی اپنے گاؤں  کی بابت بھی نہیں  بتایا۔ 
 اس میں  شک نہیں  کہ اُنہو ں نے اپنی ڈگریوں  کے تعلق سے کوئی دعویٰ نہیں  کیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں  کہ وہ کچھ چھپانا چاہتے تھے یا اُن کے ذاتی کوائف میں  کوئی بات ایسی تھی جو گڑھی گئی ہو۔ اکیمبرج یونیورسٹی کے سینٹ جان کالج میں  اُن کے نام سے اسکالر شپ دی جاتی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے جس کالج (نفیلڈ کالج) سے اُنہوں  نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اُس نے اُنہیں  اپنی ویب سائٹ پر اہتمام کے ساتھ جگہ دی ہے۔وہاں  اُن کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ کتابی شکل میں  شائع کیا گیا جس کا عنوان تھا: ’’ہندوستان کا برآمداتی رجحان اور پائیدار معاشی ترقی کے امکانات‘‘۔ 
 چونکہ وہ پڑھنے لکھنے کے معاملے میں  گہرائی تک اُترے ہوئے تھے اس لئے کسی خیال سے لمحوں  میں  خوش ہوجانا اُن کا شعار نہیں  تھا۔ اس لئے اُنہوں  نے کوئی ایسا قدم نہیں  اُٹھایا جس سے ہندوستان کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اُنہوں  نے کچھ کیا تو اس کے برخلاف کیا۔اگر اُن کے سامنے کوئی یہ خیال بھی پیش کرتا کہ ایک ہی جھٹکے میں  کس طرح معیشت کی رگوں  میں  دوڑنے والی کرنسی کو یکلخت ہٹا دیا جائے تو وہ خوفزدہ ہوئے بغیر نہ رہتے۔ کسی اقدام سے عوام کو تکلیف پہنچے اُن کا مزاج اسے برداشت نہیں  کرسکتا تھا۔ اُن میں  ایسا کوئی قدم اُٹھانے کی بھی اہلیت نہیں  تھی کہ لاک ڈاؤن جیسے کسی فیصلے سے اچانک ہندوستان کی سڑکیں  سنسان ہوجائیں  اور لاکھوں  لوگوں  کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اُٹھا

 وہ فوری فیصلے کے قائل نہیں  تھے اور ایسا ہونا بہتر فیصلہ کرنے کی ابتدائی منزل ہوتی ہے۔ وہ دانشورانہ صلاحیتوں  کا حامل ہونے کے سبب غوروخوض کے عادی تھے۔ دُنیا کے کام کاج کے طریقے سے وہ بے بہرہ نہیں  تھے۔ مارچ ۲۰۰۹ء میں  فنانشیل ٹائمس نے اپنے تین مدیروں  کو اُن کا انٹرویو لینے کیلئے بھیجا تھا جن کا پہلا سوال تھا: ’’کیا آپ عالمی زری نظام (گلوبل مانیٹری ریجیم) کی ناکامی پر چین کے موقف سے متفق ہیں ؟ کیا آپ ڈالر کے بجائے کسی نئے محفوظ املاک (نیو ریزرو اَسیٹ) کے خیال سے اتفاق کرتے ہیں ؟ یہ دونوں  سوال آج بھی اُتنے ہی بامعنی ہیں  جتنا کہ کل تھے۔ بہرحال اس سوال کے جواب میں  منموہن سنگھ نے جو کہا آج وہ بھی اُتنا ہی بامعنی ہے جتنا کہ کل تھا۔ اُنہو ں نے کہا تھا: ’’دیکھئے یہ نئے مسائل نہیں  ہیں ۔ مَیں  ۱۹۷۰ء کی دہائی میں  پال واکر کی قیادت میں  بننے والی اس سلسلے کی ۲۰؍ رُکنی اولین کمیٹی میں  شامل تھا۔ اس موضوع پر کافی بحث ہوچکی ہے کہ محفوظ املاک کے نئے اور غیر جانبدار نظام کو کیسے تشکیل دیا جائے مگر یہ اتنا آسان نہیں  ہے۔ پیسہ جاری کرنے کی طاقت یا اختیار کسی ملک کی اپنی طاقت اور اختیار کا غماز ہوتا ہے اور کوئی بھی ملک قطعی نہیں  چاہتا کہ اس کی وہ طاقت یا اختیار چھن جائے‘‘۔ واضح رہے کہ امریکی ڈالر وہ سب سے بڑی کرنسی ہے جو عالمی سطح پر ریزرو اَسیٹ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔
 اپنے پیش رَو وزرائے اعظم کے برخلاف، منموہن سنگھ ملک پر پارٹی کو ترجیح نہیں  دیتے تھے۔ ۲۹؍ اپریل ۲۰۰۲ء کو ایک ہفت روزہ میگزین میں  شائع ہونے والی اس رپورٹ کو دیکھئے جس میں  کہا گیا تھا کہ ’’جیسے ہی اُس وقت کے بی جے پی کے صدر جن کرشنا مورتی نے اپنی صدارتی خطاب مکمل کیا، نریندر مودی کھڑے ہوئے اور کہا کہ ’’اَدھیکش جی، مَیں  گجرات پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں ، پارٹی کے نقطۂ نظر سے، یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر بہت کھلی بحث کی ضرورت ہے جس کیلئے مَیں  اپنا استعفیٰ حاضرین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، ہمیں  یہ طے کرنا پڑے گا کہ پارٹی کی سمت کیا ہوگی۔‘‘ گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ کو زیادہ کچھ نہیں  کہنا پڑا مگر اس طرح ایک ہی جھٹکے میں  انہوں  نے موقع کا فائدہ اُٹھا لیا اور حاضرین میں  سے کئی لوگ اُس وقت کے وزیر غذا شانتا کمار کے خلاف آوازیں  لگانے لگے جن کا اظہار خیال مودی کے خلاف جاتا تھا۔ اُس اظہار خیال میں  تنقیدی پہلو تھا۔ شانتا کمار کو اپنے کہے پر معذرت کرنی پڑی۔ ممکن تھا واجپئی، مودی کا استعفےٰ قبول کرلیتے جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ اُن کی شبیہ محفوظ رہتی اور مخلوط حکومت کی پارٹیوں  کا اتحاد برقرار رہتا مگر میٹنگ کا ماحول مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ واجپئی نے کوشش کی کہ معاملہ ایک دن کیلئے مؤخر کردیا جائے مگر جلسہ گاہ کے بدلے ہوئے مودی نواز ماحول نے اس کی بھی اجازت نہیں  دی۔
 واجپئی وزیر اعظم تھے مگر کچھ نہیں  کرسکے تھے اس کے باوجود آج کے نئے ہندوستان میں  یہ کہا جاتا ہے کہ منموہن کمزور وزیر اعظم تھے جو دباؤ کا مقابلہ نہیں  کرسکتے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK