مسلم معاشرہ ہر بات کیلئے مخالف حالات اور غیروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا، اسے اپنے اندر بھی جھانکنا چاہئے کہ جب تک اپنی ہی کوتاہی کا ازالہ نہیں کیا جائیگا، دوسروں کو ہمنوا نہیں بنایا جاسکتا۔
EPAPER
Updated: October 19, 2024, 1:32 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
مسلم معاشرہ ہر بات کیلئے مخالف حالات اور غیروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا، اسے اپنے اندر بھی جھانکنا چاہئے کہ جب تک اپنی ہی کوتاہی کا ازالہ نہیں کیا جائیگا، دوسروں کو ہمنوا نہیں بنایا جاسکتا۔
مَیں ہندوستانی مسلمان ہوں اور، حسب سابق، اندیشوں میں گھرا ہوا ہوں ۔ ایسا لگتا ہے یہ میری عادت بن چکی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب مجھے نت نئے اندیشے نہ گھیرتے ہوں ۔ اِس میں میری نفسیات کا کوئی قصور نہیں ۔ حالات ہی ایسے ہیں ۔ تین طلاق قانون سے لے کر شہریت ترمیمی ایکٹ تک، وقف املاک بل سے لے کر مسجدوں پر ہونے والے دعوؤں تک اور سیاسی لیڈروں کی یاوہ گوئی سے لے کر سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے جھوٹ تک، مجھے کوئی ایسا گوشہ دکھائی نہیں دیتا جہاں راحت وسکون کا سانس لے سکوں ۔ اکثر محسوس کرتا ہوں کہ نہ تو میری ذات محفوظ ہے نہ ہی میری مذہبی شناخت، نہ تو میری زبان اور اس کا ادب سلامت ہے نہ ہی میری تہذیب۔ یہ بات مَیں کبھی زبان پر نہیں لاتا مگر کبھی کبھی شدید احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اُس میں موجودہ سیاسی ماحول کا دخل پچاس فیصد ہے اور بقیہ پچاس فیصد میرا اپنا قصور ہے۔ بقیہ پچاس فیصد کی بات مَیں اس لئے نہیں کرتا کہ میرے احباب ناراض ہوجاتے ہیں ۔ اِس سلسلے میں اُن کی تاویل بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر حالات کا پچاس فیصد قصور نہ ہو تو بقیہ پچاس فیصد کا بھی سوال پیدا نہ ہو۔ مَیں یہ سن کر خاموش رہتا ہوں مگر دل سے اس دلیل کو قبول نہیں کرتا۔ اگر مَیں غلط ہوں اور میرے احباب صحیح ہیں تب بھی مَیں یہی کہوں گا کہ بقیہ پچاس فیصد کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی تو پہلے پچاس فیصد پر قابو آجائیگا۔ مَیں ایسا کیوں کہتا ہوں اس کی وجہ ہے:
میری بے وزنی میں حالات کا قصور زیادہ ہے یا میرا اپنا؟ اِس کا سیدھا جواب میرے ذہن میں نہیں ہے مگر اس پر سوچتے وقت چند سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں ، مثلاً، ملک میں میری قیادت کے عنوان پر ایسا خلاء ہے جو برسوں سے ہے اور پُر ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کیا میری قوم اِس خلاء کو پُر نہیں کرسکتی؟ برسوں پہلے مَیں نے ایک مضمون لکھا تھا۔ عنوان تھا: ’’قیادتیں آسمان سے نہیں اُترتیں ‘‘۔ تب بھی میرا خیال یہی تھا جو آج ہے کہ قیادتیں زمین پر پیدا ہوتی اور پنپتی ہیں ۔ مگر یہاں تو خلاء ہی خلاء ہے۔ اول تو قیادت اُبھرتی نہیں ہے اور اگر اُبھرے تو اُسے کوئی دوسرا نہیں مَیں ہی نیچا دکھاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اُس کا اثرورسوخ، جو تھوڑا بہت ہے، کم ہوجائے۔ میرا ایک اور مسئلہ ہے۔ مَیں نے قیادت کو ہمیشہ سیاست میں تلاش کیا ہے۔ کیا سیاست کے علاوہ کسی اور شعبہ سے قیادت نہیں اُبھر سکتی؟
گستاخی معاف، مذہبی قیادت پر بھی میرا بھروسہ کم ہے۔ یہ میرے قول سے ظاہر نہیں ہوتا لیکن عمل کا تجزیہ کیجئے تو ثابت ہوجائیگا۔ اس کی جو بھی وجوہات ہوں مگر یہ حقیقت ہے۔ قیادت کی عدم موجودگی کی جو سزا مجھے اب تک ملتی رہی، اُس کی اپنی تاریخ ہے مگر حالیہ برسوں میں مجھے اس کا بہت قلق رہا کیونکہ بادِ مخالف کے جھونکوں میں شدت آگئی اور مَیں دیکھتا رہا کہ قیادت نہ ہونےسے میری بات ایوان اقتدار تک پہنچ ہی نہیں رہی ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ میرا کوئی طرفدار نہ ہو۔ برادران وطن میں میرے غمخواروں کی کمی نہیں ۔ وہ ہر ایسے موضوع پر میری ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں جس پر لب کشائی کی مَیں ہمت نہیں کرتا۔ وہ ایوان اقتدار میں بھی میرا مقدمہ پیش کرتے ہیں اور میرے لئے فرقہ پرستوں سے لڑتے ہیں ۔ اُن کیلئے دل سے دُعا نکلتی ہے مگر قیادت؟ سوچتا ہوں قیادت نہ کہوں مگر خلاء کہوں یا سناٹا؟ اُف یہ بھی عجب تذبذب ہے!
میری بے وزنی میں حالات کا قصور زیادہ ہے یا میرا اپنا؟ جب تک حالات نسبتاً بہتر تھے، مجھے اعلیٰ تعلیم سے کسی نے نہیں روکا مگر مَیں خود ہی رُکا رہا۔ اگر آزادی کے بعد ہی سے مَیں نے تعلیم کی طرف توجہ دی ہوتی اور علم کے ہر شعبے میں امتیازی کامیابی حاصل کی ہوتی تو آج کیفیت دوسری ہوتی۔ نہ تو اتنی سماجی بے اثری ہوتی نہ ہی معاشی بے بضاعتی۔ تعلیمی پسماندگی ہی کا نتیجہ ہے کہ مَیں غیر منظم زمرہ یعنی چھوٹے چھوٹے کاروبار میں سمٹ گیا ہوں ، منظم زمرے میں یعنی بڑی کمپنیوں اور مشہور تجارتی اداروں میں میری حصہ داری معمولی سے بھی کم ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کسی نے میرے ہاتھ پیر تو نہیں باندھ دیئے تھے کہ مَیں کاروبار میں آگے نہ بڑھوں ۔ چند نام ہیں جنہوں نے ترقی کی اور بڑا کاروبار قائم کیا، مگر وہ کتنے ہیں ؟ اُن کا پھلتا پھولتا کاروبار ثابت کرتا ہے کہ جس نے بڑا خواب دیکھا اور تعبیر ِ خواب کیلئے جدوجہد کی وہ کسی کے روکے نہیں رُکا مگر ایسی دوچار مثالیں کیوں ہیں ؟ ڈھیروں کیوں نہیں ہیں ؟
یہ بھی پڑھئے: نوبیل انعام پانے والے سائنسداں کا انتباہ
یاد رہے مَیں ہندوستانی مسلمان ہوں ۔ یہاں ایک منٹ رُکئے، بیک وقت بہت سی بائیکوں کی آواز سنی آپ نے؟ رات کے سناٹے میں یہ بائک دوڑانے والے نوجوانوں کا غول ہے۔ سب نے ریس لگا رکھی ہے۔ شایدکوئی عالمی تمغہ ملنے والا ہے۔ اگر آپ اُنہیں بائیک اُڑانے والا سمجھ رہے ہیں تو معاف کیجئے آپ غلطی پر ہیں ۔ یہ بائیک نہیں اُڑاتے، تعلیم کی بات کرنے والوں کا مذاق اُڑاتے ہیں ۔ کوئی روکتا ہے انہیں ؟ جی نہیں ، انہیں کوئی نہیں روکتا، سب مجھی کو روکتے ہیں کہ ان کے پیچھے اپنی جان جلانے سے کیا ہوگا، مگر، آپ ہی بتائیے مَیں جان کیوں نہ جلاؤں ؟ یہ سب اسکول کالج کے ڈراپ آؤٹس ہیں ۔ یہ پڑھتے نہیں ہیں تو کریئر کیسے بنائینگے؟ لڑکیاں پڑھتی ہیں مگر اُنہیں کریئر بنانے کا موقع نہیں ملتا۔ اِسی لئے اعلیٰ ملازمتوں پر کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ دیکھ کر بھی مَیں بہت کڑھتا ہوں اور شاید جب تک رہوں ، کڑھتا ہی رہوں کیونکہ معاشرہ میں ایسا کوئی نظم نہیں ہے جس کے تحت انہیں سمجھایا جائے۔ اس لئے جو ہورہا ہے خدانخواستہ ہوتا ہی رہے گا۔ اُس کے ساتھ ہی یہ بھی ہوگا کہ لڑکے (اسے لاڈکے پڑھئے) کم تعلیم یافتہ اور لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونگی (اب بھی ہیں )۔ سوچئے کیا عمدہ توازن پیدا ہورہا ہے معاشرہ میں ۔ ایک صاحب نے کہا کل تک کم پڑھی لکھی عورتوں سے تعلیم یافتہ مردوں کی شادی ہوتی تھی، اب اگر اس کا اُلٹ ہورہا ہے اور تعلیم یافتہ عورتوں کو کم پڑھے لکھے مردوں سے منسوب ہونا پڑرہا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ اس پر میرا جواب ہے: واہ کیا خوب سودا نقد ہے!
سوچتا ہوں یہ زریں خیال میرے ذہن میں کیوں نہیں آیا؟