• Wed, 12 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈاکٹر ذاکر حسین کو میں نے جامعہ میں دیکھا ہے

Updated: February 10, 2025, 1:21 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

۸؍فروری کو سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کا یوم ولادت تھا۔ وہ دن تو گزر چکا مگر ذاکر صاحب کے ذکر کیلئے کوئی دن مخصوص نہیں، اُن کی حیات اور خدمات پر سال بھر بھی گفتگو جاری رہے تو کم ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 یہ عنوان کتنا حیران کن ہے۔لیکن یہ حیرانی اس وقت کم ہو جاتی ہے جب تحریروں ،تقریروں  اور تصویروں  کو ہم بغور دیکھتے اور سنتے ہیں ۔ جامعہ میں  ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلق سے اس عنوان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ یہاں  اتنی چیزیں  ان سے منسوب ہیں  کہ ہم ڈاکٹر ذاکر حسین کے خیال سے غافل ہو ہی نہیں  سکتے۔ یہاں  کی سینٹرل لائبریری اُن سے منسوب ہے۔ اس  میں  داخل ہوتے ہوئے  ان کی تصویر نگاہ کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ تصویر جامعہ کی چند دوسری اہم شخصیات کی تصویروں  کے ساتھ کتنی روشن دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا مقبرہ سڑک کی ایک جانب تھوڑی بلندی پر واقع ہے۔ آتے جاتے ہوئے نگاہ ادھر کو چلی ہی جاتی ہے۔ سڑک کی دوسری جانب جامعہ کا صدی دروازہ ہے جو جامعہ کی سو سالہ تاریخ کی کہانی اپنی پختہ اور کشادہ بلندی کے ساتھ خاموشی کی زبان میں  سناتا ہے۔ یہ وہ خامشی ہے جو یہاں  کی قومی خدمات کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ڈاکٹر ذاکر حسین کا مقبرہ جامعہ کی تشکیل،تاریخ اور اس کے ارتقاء کو خیال کی سطح پر ایک نیا مفہوم عطا کرتا ہے۔ صدی دروازہ اپنے وقت کے ساتھ ہے مگر اس میں  اس وقت کی کہانی بھی پوشیدہ ہے جس کا اہم ترین حوالہ ذاکر صاحب کی شخصیت ہے۔آپ کی تحریریں  مطالعے میں  آتی رہی ہیں ۔ خیال آیا کہ اس تحریر کو قلم بند کرنے سے پہلے ذاکر صاحب کی تصویروں  کو دیکھا جائے۔ ان کی تقریریں  بھی سنی جا سکتی ہیں ۔ تصویروں ، تحریروں  اور تقریروں  کے درمیان کوئی ایسا رشتہ بھی ہوگا جو نگاہ دیکھنے سے قاصر رہتی ہے۔ 
 ذاکر صاحب کی ایک تصویر گاندھی جی کے ساتھ ہے۔یہ تصویر ان دنوں  کی ہے جب ڈاکٹر ذاکر حسین نوجوان تھے۔ وہ گاندھی کے بہت قریب بیٹھے ہیں  اور گاندھی جی کسی مسئلے پر غور کرتے ہوئے کہیں  اور  دیکھ رہے ہیں ۔ یہ تصویر تاریخ کے ایک اہم باب کو چھپائے ہوئے ہے۔اس باب میں  جامعہ کے تعلق سے بہت سے جملے اور حروف روشن ہیں ۔یہ جو تصویر کی خاموشی ہے اس میں  کتنی گویائی پوشیدہ ہے۔اس تصویر کو میں  نے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ اور یہ آرزو کی ہے کہ کیا عجب تصویر کو دیکھتے دیکھتے کسی آواز کا سراغ مل جائے۔ ذاکر صاحب کی جو تصویریں  بعد کی ہیں ،ان کی آنکھوں  پر سیاہ چشمہ دکھائی دیتا ہے۔یہ سیاہ چشمہ اتنا پرکشش ہے کہ ایک شفاف روشن خیال اور دراز قد شخصیت کو کچھ اور نمایاں  کر دیتا ہے۔یہ چشمہ چہرے کیلئے کسی اجنبیت کا تاثر پیش نہیں  کرتا۔نگاہ کتنی اندر اندر روشن ہوگی اور وہ ہلکی گہری سیاہی کے ساتھ کتنی دور تک جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اس چشمے سے ہو کر نکلنے والی روشنی جو دراصل نظر تھی، وہ آج کی شام کو بھی روشن کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اب جامعہ میں  شام گہری ہو گئی ہے اور مجھے ذاکر صاحب کے مقبرہ اور صدی دروازے کے درمیان سے گزرنا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ذاکر صاحب کو میں  نے جامعہ میں  دیکھا ہے۔۱۹۳۵ء  میں  انہوں   نے کاشی ودیا پیٹھ کے جلسۂ تقسیم اسناد میں  جو خطبہ پڑھا تھا اس پر نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ قومی تعلیم کس طرح جامعہ اور ودیاپیٹھ کو ایک دوسرے سے فکری اور نظریاتی طور پر قریب کر رہی تھی۔یہ تقریر زمانی اعتبار سے بہت پرانی ہو چکی ہے لیکن ان دو قومی اداروں  کے تاریخی کردار کو دیکھنے کیلئے اسی قومی زاویۂ نظر کی ضرورت ہے۔ ذاکر صاحب کے  یہ الفاظ دیکھیے: ’’آج سے کوئی ۱۵؍سال پہلے جب اس ودیاپیٹھ کی بنیاد رکھی گئی تھی تو وہ زمانہ ہماری قوم کیلئے بڑی بے چینی کا زمانہ تھا۔اس بے چینی کا سلسلہ اب تک کسی نہ کسی شکل میں  جاری ہے۔کبھی ابھر آتی ہے، کبھی دب جاتی ہے۔اس بے چینی نے ہماری قوم میں  بڑی بیداری پیدا کی ہے اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں  نے اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر میں  سمجھتا ہوں  کہ جب اس بیداری کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس زمانے میں  قومی تعلیم گاہوں  کا قیام ہماری قومی زندگی کیلئے شاید سب سے زیادہ اہم واقعہ تسلیم کیا جائیگا۔‘‘ 
 کسی معاشرے اور قوم کیلئے بے چینی کا زمانہ کتنا اہم ہوتا ہے۔ بے چینی جب قومی زندگی کی پہچان بن جائے تو ایسے میں  بے چین شخص کی تاریخ قوم کی تاریخ بن جاتی ہے۔ یہ تاریخ کا گہرا شعور ہی تھا جس کی بنا پر انہوں  نے اس خیال کا اظہار کیا کہ بے چینی کبھی دب جاتی ہے تو کبھی ابھر آتی ہے۔یہ بات بظاہر جتنی آسان دکھائی دیتی ہے اتنی آسان کہاں  ہے۔ قومی اور سیاسی زندگی بلکہ علمی زندگی کبھی اسی بے چینی سے پہچانی جاتی تھی۔ آسائش کا وہ مطلب ہی نہیں  تھا جو سمجھا گیا یا سمجھا جاتا ہے۔ بیداری کی تاریخ سب سے روشن تاریخ ہوتی ہے۔ ذاکر صاحب نے قومی زندگی، قومی تعلیم اور قومی ادارے کو کچھ اس طرح دیکھا ہے کہ جیسے یہ سب ایک ڈور میں  بندھے ہوں ۔ بے چینی کا زمانہ داخلی اور خارجی اعتبار سے کتنا الجھا ہوا ہوتا ہے۔  اختلافات بھی سر اٹھاتے ہیں ۔ڈاکٹر ذاکر حسین نے جس شفافیت کے ساتھ بے چینی کے زمانے کو دیکھا ہے اس سے بہت واضح ہے کہ اگر مقاصد اعلیٰ اور نیک ہوں  تو مسائل حل ہوتے نظر آتے ہیں ۔
 قومی زندگی کے الجھے ہوئے مسائل اس وقت اور الجھنے لگتے ہیں  جب ذہن میں  کوئی گرہ پڑ گئی ہو۔ ڈاکٹر ذاکر حسین قومی تعلیم گاہوں  کو ایک واقعے کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ وہ اسی خطبے میں  فرماتے ہیں : ’’مجھے خیال آیا کہ شاید اس بلاوے میں  ایک اور بات چھپی ہے،یعنی یہ کہ جامعہ ملیہ میں  میرے ساتھی قومی تعلیم کا جو کام بڑے کٹھن حالات میں  کر رہے ہیں ،اس میں  کاشی ودیا پیٹھ کے بھائی اور ساتھی جو خود اسی قسم کے کام میں  لگے ہوئے ہیں  ہماری ہمت بڑھانا اور اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ 
 دو قومی اداروں  کے درمیان مکالمے کی ضرورت پہلے بھی تھی لیکن جیسا کہ میں  لکھ چکا ہوں  آج کچھ زیادہ ہے۔ ذاکر صاحب نے کاشی ودیا پیٹھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درمیان جس قومی رشتے کی جستجو کی تھی، اس کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔ اس اہمیت کا تعلق ہماری اس بے چینی سے ہے جو آج کی زندگی کے سیاق میں  اپنا جدید تر مفہوم تو رکھتی ہے، لیکن اس کا رشتہ اسی بے چینی سے ہے جس کا ذکر قومی تعلیم کے سیاق میں  ذاکر صاحب نے بہت پہلے کیا تھا۔ ذاکر صاحب کی وہ تقریر جو انہوں  نےجامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے ۲۵؍ سال مکمل ہونے پر فرمائی تھی، اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ آئندہ ہفتے مَیں  اسی پر گفتگو کروں   گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK