ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات کی وجہ سے ساری دنیا میں سٹہ بازاروں پر شدید جھٹکے لگے جن میں ہندوستان بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اب ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف امریکی رائے عامہ بڑھتی جارہی ہے۔
EPAPER
Updated: April 22, 2025, 3:43 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات کی وجہ سے ساری دنیا میں سٹہ بازاروں پر شدید جھٹکے لگے جن میں ہندوستان بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اب ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف امریکی رائے عامہ بڑھتی جارہی ہے۔
سچ پوچھئے تو ہمیں ڈونالڈ ٹرمپ کے ذاتی کردار سے کوئی واسطہ نہیں، ہمیں صرف اس بات کی خوشی تھی کہ ان کے صدر بننے کے بعد غزہ میں جنگ بندی ہوگئی، فلسطین کی جدو جہد اب پون صدی پرانی ہوچکی ہے اور لاکھوں فلسطینی اسی طرح سے شہید ہوئے ہیں جس طرح کوئی فوجی مقابلے میں شہید ہوتا ہے۔ فلسطین سے ہماری دلچسپی اس لئے بھی ہے کہ وہ ہمارے ہم مذہب بھی ہیں لیکن اسی کے ساتھ بطور صحافی بھی ہمیں ان سے دلچسپی ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ایماندار صحافی بے گناہوں کے سفاکانہ قتل سے مبرّا نہیں رہ سکتا تھا اس لئے بطور صحافی بھی ہمیں فلسطین اور فلسطینیوں سے رغبت ہے۔لیکن جیسا کہ بتایا گیا کہ ٹرمپ کو روز بہ روز نت نئے بیانات دینے کی عادت تھی، بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ اقدامات اس لئے کررہے ہیں کہ امریکہ کی مالی حالت بہت دگرگوں ہے۔
۱۹۳۳ء میں جس ڈالر کو سونے کی قید سے آزاد کیا گیا تھا اس کے بعد سے اب تک ڈالر دنیا کی معیشت پر غا لب آچکا تھا۔ امریکی ڈالر چھاپتے تھے اور دنیا ان ڈالروں کو خریدتی تھی کیونکہ سارا بین الاقوامی کاروبار ڈالر کی سطح پر ہی چل رہا تھا۔ لیکن اب ڈالر کی حیثیت روز بہ روز کم ہورہی ہے کیونکہ امریکہ فوجی لحاظ سے تو اب بھی بہت طاقتور ہے مگر معاشی اعتبار سے اب چین اس کے ہم پلہ ہونے کو ہے اور امریکہ کیلئے یہ کوئی بہتر خبر نہیں تھی۔ ٹرمپ کے بیانات کی وجہ سے ساری دنیا کے سٹہ بازاروں کو شدید جھٹکے لگے جن میں ہندوستان بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اب ٹرمپ کے خلاف امریکی رائے عامہ بدل رہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکی سرمایہ بچانے کیلئے کئی اداروں کی امداد بند کردی۔ ’’ وائس آف امریکہ‘‘ کیلئے جب ٹرمپ نے امداد دینا بند کی تو ہزاروں صحافی بے روزگار ہوگئے۔
اسی طرح حال ہی میں ٹرمپ نے یہ پالیسی بنائی کہ امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو نکال باہر کیا جائے، اس میں سیاست بھی شامل تھی۔ حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے تین فلسطینیوں کو واپس جانے کا حکم دیا، یہ بھی امریکی تھے جو دوسری جگہ سے آکر یہاں بس گئے تھے۔ اس پر امریکی عدالت نے نہ صرف ایک اسٹے آرڈر دیا بلکہ ٹرمپ سرکار سے تقاضہ کیا کہ ان فلسطینیوں کو واپس لایا جائے اور امریکہ میں ہی بسایا جائے۔ حالانکہ یہ ایک نچلی عدالت کا آرڈر ہے اور ٹرمپ سرکار اس کے خلاف سپریم کورٹ بھی گئی لیکن ایک تو ٹرمپ کے فلسطینیوں کے نکالنے کا معاملہ تین چار مہینوں سے پہلے عمل میں نہیں آئیگا اور جب عمل میں آئے گا تب تک نہ جانے کیا کچھ ہوچکا ہوگا۔ جہاں تک امریکہ کی سپریم کورٹ کا سوال ہے وہاں بھی کورٹ کے جج دونوں پارٹیوں میں سے کسی ایک پارٹی کے رکن یا ہمدرد ہوتے تھے۔ دنیا میں ہر جگہ کی طرح امریکہ میں بھی کورٹ کے جج کسی سیاستداں کی عوامی طاقت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، ان کے فیصلے عموماً انسانی حقوق کی پاداش میں رہتے تھے۔
حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے کئی یونیورسٹیوں کی مدد بند کردی، جن میں کولمبیا اور ہارورڈ کی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں ۔ حالانکہ مدد کے بند کردینے سے ان امریکی یونیورسٹیوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے اپنی معاشی حیثیت ہے مگر ہارورڈ یونیورسٹی نے اس بات کا گلہ کیا کہ امداد بند کرنے کے ساتھ اس پر یہ شرط بھی لگا دی گئی ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی اب اساتذہ کے تقرر کے وقت سرکار کے حکم کی پابند ہوگی۔ امریکیوں کیلئے یہ بات ناقابل برداشت تھی او رامریکہ میں جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں اور کئی جگہ سرکار کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ کی معاشی پابندیو ں کی وجہ سے ’’ایپل‘‘ بھی پریشان ہے، جس نے اخراجات کم کرنے کیلئے چین میں اپنی فیکٹری کھولی تھی، ظاہر ہے کہ اس کے فون چین پر لگائی گئی ایک سو چوراسی فیصد ٹیکس کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی، ایپل کا ایک حصہ ہندوستان میں بھی ہے اور انہوں نے یہ کوشش بھی کی کہ وہ یہ فون ہندوستان میں بناکر امریکہ کو بھیجیں مگر ہندوستان پر امریکہ نے انتیس فیصد ٹیکس لگا دیا ہے اور ایپل جو اَب تک ٹیکس کی پابندیوں سے آزاد تھی، انتیس فیصد ٹیکس بھی کیوں دے؟ اسلئے ایپل کے فیصلے پر چاروں طرف غور ہورہا ہے۔ یہ تو رہے امریکہ کے اندرونی معاملات۔ اب ذرا باہر کے بھی معاملات پر نظر ڈالئے۔
اس میں شک نہیں کہ غزہ میں جنگ بندی ہوگئی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ امریکہ نے اسرائیلی کی فوجی مدد میں کوئی کمی نہیں کی، لیکن بی بی یا ہو نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔نیتن یاہو کی سرکار سات پارٹیوں کے ایک محاذ کی پیداوار ہے اور ان پارٹیوں میں آج تک کوئی اتفاق نہیں پیدا ہوسکا ہے۔ نیتن بنجامن یاہو کی سرکار کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔نیتن یاہو نے اس سلسلے میں امریکہ کا سفر بھی کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ امریکہ اب غزہ پر کسی اسرائیلی حملے کی کوئی مدد نہیں کریگا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ نیتن یاہو کی سرکار اتنے عرصے میں صرف اس وجہ سے زندہ رہی کہ اس نے حماس سے جنگ کی اور فلسطینیوں کی زمینوں کے ایک حصے پر قبضےکرکے وہاں نئی کالونیاں بنالیں ، لیکن حماس کی جنگ کے بعد یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ اسرائیلی سرکار نے اس کے بعد یہ طے کیا کہ اسے زندہ رکھنے کیلئے جنگ ہی کافی ہوگی اور اس نے یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ ایران کے نیوکلیائی اڈوں پر چھپ کر حملہ بھی کریگی اور انہیں تباہ بھی کردیگی لیکن اسرائیلی سرکار کی یہ حرکت بھی نہیں چلی۔ اب رہا ایران کا معاملہ توڈونالڈ ٹرمپ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ایران اپنے نیوکلیائی اڈوں کو تباہ کردے لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ سرکار کے نمائندے اور ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کہیں اور نہیں عرب دیش کے ایک ملک عمان میں مل رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ دونوں کی گفتگو بہت سود مند ثابت ہوگی یعنی جس طرح قطر نے افغانستان کے سلسلے میں رول ادا کیا تھا اسی طرح عمان بھی شاید امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی کا کردار ادا کررہا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے ، لیکن اس سے واضح ہوتا ہے کہ نہ صرف ٹرمپ سرکار اپنے ملک کے اندر تبدیلی لا رہی ہے بلکہ بیرونی محاذ پر بھی اسے کئی جگہ گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں اور یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ میں کوئی تبدیلی پنپ رہی ہے، اس کا اثر شاید کچھ عرصہ کے بعد دنیا کو دکھائی دے لیکن دکھائی ضرور دے گا۔n