مارچ ۲۰۲۳ء میں جب آئی سی سی نے روسی صدر پوتن کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا تو امریکہ نے اس کا خیر مقدم کیا تھا لیکن نیتن یاہو کیلئے جاری ہونے والے وارنٹ پر آگ بگولہ ہوگیا ہے کیونکہ آئی سی سی کا یہ اقدام اسرائیل کے جرائم میں شاید امریکہ کی ساجھے داری پر بھی فرد جرم ہے۔
عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت مخالف جرائم کے ارتکاب کے لئے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یواو گیلنٹ کا وارنٹ گرفتاری کااجرانہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے سرپرستوں اور مددگاروں کے لئے بھی بے حد سنگین نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ یہ وارنٹ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ کسی مغربی جمہوری ملک کے سربراہ کے خلاف عالمی عدالت نے ایسا سخت قدم پہلی بار اٹھایا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ وارنٹ امریکہ اور مغرب کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔ اسی لئے آئی سی سی کے اس عدیم المثال فیصلے کے خلاف تل ابیب کے بعد سب سے سخت ردعمل واشنگٹن میں ہوا۔امریکی حکومت نے اسے برہمی سے مستردکردیا۔بائیڈن انتظامیہ، امریکی کانگریس کے اراکین اور مین اسٹریم میڈیا نے اس کی مذمت کی۔رخصت پذیر صدرنے اسے شرمناک قرار دیا اور یہ اعلان کردیا کہ اسرائیل کی سلامتی کو جب بھی کوئی خطرہ درپیش ہوگا امریکہ ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا رہے گا۔امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے نہ صرف فیصلے پر اپنی خفگی جتائی بلکہ عالمی عدالت کے وجود پر ہی سوال کھڑے کردئے۔نو منتخب صدر ڈونالڈٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائک والزنے آئی سی سی کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے یہود مخالف رویہ کے خلاف جنوری میں سخت کاروائی ہوگی۔
مارچ ۲۰۲۳ء میں جب آئی سی سی نے روسی صدر پوتین کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھاتو امریکہ نے عالمی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھالیکن نیتن یاہو کی باری آئی تو اس کے تیوریوں پر بل پڑ گئے۔امریکہ کی ناراضگی صرف اسرائیل کی محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لئے بھی ہے کہ آئی سی سی کا یہ اقدام اسرائیل کے جرائم میں شاید امریکہ کی ساجھے داری پر بھی فرد جرم ہے۔
جس طرح قانون کی نگاہ میں کسی شخص کے قتل میں قاتل کی مدد کرنے والا شخص بھی شریک جرم اور سزا کا مستحق ہوتا ہے اسی طرح Genocide Convention کے آرٹیکل یکم کے مطابق نسل کشی میں شراکت یا تعاون کرنے والا ملک بھی سزا کا مستحق ہے۔ نسل کشی میں استعمال کئے جانے والے مہلک ہتھیاروں کی فراہمی بھی نسل کشی میں شراکت داری قراردی گئی ہے۔ بائیڈن حکومت نے پچھلے ۱۳؍ ماہ میں اسرائیل کو اٹھارہ ارب ڈالرز کے جنگی ساز و سامان فراہم کئے ہیں ۔اس طرح بائیڈن بھی غزہ کے باسیوں کے قتل عام کے جرم میں شریک جرم ٹھہرے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر Jeffrey D. Sachs کا دعویٰ ہے کہ مڈل ایسٹ میں نیتن یاہو کے ذریعہ برپا کی گئی تمام ہلاکت خیزیوں میں امریکی حکومت کی مکمل حصہ داری رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی خزانے سے اربوں ڈالر ہتھیا لئے، عالم اقوام میں امریکہ کے وقار پر بٹہ لگوایا، نسل کشی میں امریکہ کو ملوث کروایا اور دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے تک پہنچادیا۔
بائیڈن پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے فخرسے اپنے ’’صہیونی‘‘ ہونے کا اقرارکیا۔ غزہ کی نسل کشی کی پہلی برسی پر بائیڈن نے اعلان کیا کہ ان سے قبل کسی امریکی صدر نے اسرائیل کی اتنی مدد نہیں کی ہوگی جتنی انہوں نے کی ہے۔ بائیڈن کو حالت جنگ میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدرہونے کا شرمناک اعزاز بھی حاصل ہے۔ پچھلے ۱۳؍ ماہ میں بائیڈن امریکہ سے زیادہ اسرائیل کی خدمت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔اس عرصے میں نیتن یاہو کی فوج نے ۵۰؍ ہزار نہتے انسانوں کا قتل عام کردیا جن میں بیس ہزار بچے شامل تھے اور غزہ کو کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ ایسا نہیں ہے کہ بائیڈن کو علم نہیں تھا کہ اسرائیل ایسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ جولائی میں واشنگٹن میں نیتن یاہو اور بائیڈن کی ملاقات سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل (امریکہ)کے ڈائریکٹر پال اوبرائن نے امریکی صدر کو یہ وارننگ دی تھی کہ اگر انہوں نے نیتن یاہو کو ہتھیاروں کی فراہمی پر فوری روک نہیں لگائی تو امریکہ کو بھی اسرائیل کے جنگی جرائم میں ساز باز کا مجرم سمجھا جائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ کے بے شمار سینئر عہدے داروں نے بھی اسرائیل کے انسانیت سوز جرائم میں امریکہ کی حصہ داری کے خطرے سے صدر کو بار بار آگاہ کیا۔ ایک درجن سے زیادہ اہم عہدے داروں نے تو احتجاجاً استعفیٰ بھی دے دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی عربی زبان کی ترجمان ھلا رہریت ان میں ایک تھیں ۔انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی معاونت کے بغیر اسرائیل غزہ میں نسل کشی نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے استعفیٰ اس لئے دیا کیونکہ انہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ’’ میرے ملک کو دنیا بچوں کا قاتل کہ کر پکارے۔‘‘ امریکہ میں کئی ماہ تک عام شہری سڑکوں پر اتر کر غزہ میں جاری قتل عام رکوانے کے لئے احتجاج کرتے رہے۔ بائیڈن مسلسل یہ بیان دیتے رہے کہ وہ غزہ میں جلد ہی جنگ بندی کروانے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ جنگ بندی میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اگر دلچسپی ہوتی تو امریکہ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو مسترد نہیں کرتا رہتا۔
جنگی جرائم کے ارتکاب کے لئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری کا اجرااسرائیل کے لئے یقیناً ایک بہت بڑی سفارتی اور اخلاقی ہزیمت ہے۔آئی سی سی ان کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلانے کی پوزیشن میں تو نہیں ہے لیکن نیتن یاہو کے لئے اب دنیا کے دیگر ممالک کا دورہ کرنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہوجائے گا۔ دنیا کے ۱۲۴؍ ممالک آئی سی سی کے رکن ہیں ان میں برطانیہ اور یورپی یونین کے تمام ممالک شامل ہیں ۔ اگر نیتن یاہو ان کی سرزمین پر قدم رکھیں گے تو آئی سی سی کے وارنٹ پر عمل در آمد کرنا ان کی قانونی مجبوری بن جائے گی۔ اس وارنٹ کے اجرا نے اسرائیل کی عالمی سفارتی تنہائی میں اضافہ ضرور کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے ٹرمپ کی صدارت کے کیا اور کیسے اثرات ہونگے ؟
دوسری جانب نیتن یاہوکے جرائم میں ساجھے داری کے الزام سے بائیڈن بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے ہیں ۔ ممتاز امریکی فلاسفراور مورخ نوم چومسکی نے بہت پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جتنے امریکی صدور گزرے ہیں ان سبھوں نے اتنے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ اگر نیورمبرگ قوانین کے تحت ان پر مقدمے چلائے جائیں تو سب کے سب سولی پر لٹکائے جائینگے۔ چومسکی نے تو امریکہ کی اپنی ہولناک جنگوں کے حوالے سے اس خیال کا اظہار کیا تھا۔ معروف امریکی مصنف جیمس بیمفورڈ کا دعویٰ ہے کہ نیتن یاہو کے ہاتھوں غزہ میں کئے گئے جنگی جرائم کے ارتکاب میں بائیڈن کے سانٹھ گانٹھ کے اتنے شواہد موجود ہیں کہ آئی سی سی آسانی سے بائیڈن کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کرسکتی ہے۔