حالیہ برسوں میں آئین موضوع بنا ہے اس کے باوجود کتنے لوگ ہوں گے جو اس کے مطالعہ کا ذوق رکھتے ہوں گے؟ جمہوریت تبھی مضبوط ہوگی جب آئین کو سمجھا جائیگا۔
EPAPER
Updated: January 12, 2025, 1:58 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
حالیہ برسوں میں آئین موضوع بنا ہے اس کے باوجود کتنے لوگ ہوں گے جو اس کے مطالعہ کا ذوق رکھتے ہوں گے؟ جمہوریت تبھی مضبوط ہوگی جب آئین کو سمجھا جائیگا۔
چھبیسجنوری قریب آرہی ہے اور میرے خیال میں یہ صحیح وقت ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ اس دن کا مفہوم کیا ہے اور چھبیس جنوری کیوں اہمیت کی حامل ہے۔
حقیقت ہے کہ یہ دن بحیثیت ملک و قوم ہمارے وجود کا جشن ہے۔ یہی دن ہم میں یہ احساس جگاتا ہے کہ اس ملک کے مالک و مختار اس کے عوام ہیں جس کی ضمانت دستور ِ ہند نے دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن ہم اپنے دستور، اپنے آئین کا اور اس کے ذریعہ ملنے والے حقوق کا جشن مناتےہیں ۔ ہمیں مساوات، اظہار رائے کی آزادی، مل جل کر بیٹھنے یا جلسہ منعقد کرنے کی آزادی، پُروقار زندگی گزارنے کا حق اور تعلیم، پیشہ، مذہب کی تبلیغ یا مذہب پر عمل کرنے وغیرہ کا حق اسی دستور اور آئین نے ہم کو دیا ہے۔اسی آئین سے ہمیں یہ حق بھی حاصل ہوا ہے کہ جب بھی اہل اقتدار کے ذریعہ ہمارے بنیادی حقوق کی پامالی یا خلاف ورزی ہو تو ہم عدلیہ سے رجوع کریں ۔ بلاشبہ یہ آزادی اور حقوق بہت قیمتی اثاثہ ہے مگر جب بھی ہم ان کے بارے میں سوچتے ہیں فوری طور پر یہ خیال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا ہمیں یہ آزادی اور حقوق حاصل ہیں ؟ اگر ہاں تو کس حد تک؟ جواب سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ مذکورہ آزادی اور حقوق میں سے کافی ایسے ہیں جن کی آئین ضمانت تو دیتا ہے مگر یہ ہمیں آسانی سے حاصل نہیں ہیں ، ان کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے جس میں کبھی کامیابی تو کبھی ناکامی ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں بلکہ بہت آسانی سے اہل اقتدار ہمارے حقوق پر قدغن ڈال دیتے ہیں یا اُن کی حد مقرر کردیتے ہیں ۔
اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
آرٹیکل ۱۹؍ اظہار آزادیٔ رائے، عوامی اجتماع، نقل و حرکت اور پیشہ سے متعلق ایک جامع قانون ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کو اظہار رائے، جلسہ و اجتماع کے پُرامن انعقاد، ملک کے کسی بھی حصے میں جانے اور لوَٹ آنے، کسی بھی پیشے، کاروبار یا معاشی سرگرمی سے وابستہ ہونے کی مکمل آزادی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس آزادی کی ضمانت آئین دیتا ہے ویسی آزادی متعلقہ شرائط کو پورا کرنے کے بعد بھی ہندوستانی شہریوں کو حاصل نہیں ہے۔
اس کے برخلاف، حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وسیع دائرہ کارکے حامل قوانین بنائے اور جس طرح بھی ممکن ہو، شہریوں کے حقوق کو غصب کرے۔مثال کے طور پر آرٹیکل ۱۹؍ کو کس طرح محدود کردیا گیا اس پر غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ قانون کے ذریعہ بھی اور طریقۂ عمل کے ذریعہ بھی اس حق کو محدود ےکرنے کی کوشش کی گئی۔ سب سے پہلے شہریوں کو کسی بھی جلسے یا اجتماع کیلئے پولیس سے اجازت لینے کا حق ہے مگر پولیس اجازت دینے، اجازت نہ دینے یا جواب ہی نہ دینے کو اپنا ’حق سمجھتی ہے۔ اگر تحریری اجازت نہیں لی گئی تو اسے قانون کی خلاف ورز ی سمجھا جاتا ہے۔ قارئین دفعہ ۱۴۴؍ سے خوب واقف ہیں جس کے تحت پولیس کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ کسی جلسے یا عوام کے جڑنے کو ’’غیر قانونی جلسہ‘‘ قرار دے کر ذمہ داروں کو حراست میں لے لے۔
انجمن، اسوسی ایشن یا یونین قائم کرنے کے حق کا جہاں تک تعلق ہے، اس کی بھی تحدید کردی گئی ہے، وہ اس طرح کہ اس کیلئے رجسٹریشن ضروری قرار دے دیا گیا۔اس صورت میں حکام کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ کسی ایسی تنظیم یا انجمن کو رجسٹریشن ہی نہ دیں جسے وہ پسند نہیں کرتے۔
نقل و حرکت یا نقل و حمل کی آزادی اور اس سے متعلق حق کی اس طرح حد بندی کردی گئی کہ اگر ہندوستان کے دیگر خطوں یا علاقوں کا کوئی شہری شمال مشرقی ریاستوں کا رُخ کرنا چاہے تو یہ آسان نہیں ہے۔وہ حقوق جو قانون کے ذریعہ نافذ نہیں کئے جاسکتے اُن کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ اُن حقوق کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔
ملک کے کسی بھی حصے میں رہائش یا مستقل سکونت اختیار کرنے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ حق آزادانہ طور پر کم از کم گجرات میں تو حاصل نہیں ہے جہاں ریاستی حکومت کے ایک قانون کی وجہ سے مسلمان اس حق کو حاصل نہیں کرسکتے۔ اسے ’’ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہرچند کہ یہ پرانا ایکٹ ہے مگر وقت کے ساتھ اس میں بڑی وسعت پیدا کردی گئی اور ضابطے سخت کردیئے گئے چنانچہ مخصوص علاقوں میں مسلمان نہ تو مکان کرائے پر لے سکتے ہیں نہ ہی خرید سکتے ہیں ۔
اپنی مرضی کا پیشہ اختیار کرنے کے حق کا بھی مسئلہ ہے۔اس کو سمجھنے کیلئے یہ مثال ہی کافی ہوگی کہ وہ لوگ جو جانور ذبح کرنے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیا یہ بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آرٹیکل ۱۹؍ آزادی کی ضمانت دیتا ہے مگر اس کے پس نوشت (فٹ نوٹ) کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ پس نوشت نے یہ حق سلب کرلیا۔
۱۹۵۰ء سے لے کر اب تک جن پارٹیوں نے مرکز یا ریاست میں حکومت کی ہے، اُنہیں حق کی اس طرح تحدید یا حق سلب کئے جانے پر اعتراض نہیں ہے۔ اس معاملے میں کوئی پارٹی ایسی نہیں جو مختلف ہو۔ حکام کیلئے کیا ’’مناسب‘‘ ہے اس کے مطابق فیصلہ کرکے فرد کے خلاف ہی موقف اختیا رکرنا مشکل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری‘‘
عام خیال یہ ہے کہ شہری اور اُن کے حقوق ایسا مسئلہ ہے جو انتظامی اُمور کی انجام دہی میں رخنہ ڈالتا ہے۔ پارٹیاں انتخابی منشور میں تو وعدہ کرتی ہیں ، مثال کے طور پر جن سنگھ نے وعدہ کیا تھا کہ حفظ ماتقدم کے طور پر کی جانے والی (احتیاطی) گرفتاریاں بند کی جائینگی، مگر جب متعلقہ پارٹی یا پارٹیاں برسراقتدار آتی ہیں تو ایسے وعدوں کو سب سے پہلے پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ مضمون کے اختتام کی جانب بڑھنے سےپہلے عرض کردوں کہ حفظ ماتقدم کے طور پر کی جانے والی حراستوں کا معاملہ ہی یو اے پی اے جیسے قوانین کی بنیاد بنا۔
۲۶؍ جنوری قریب ہے جو جشن جمہوریہ سے متعلق ہے۔اس کا تقاضا ہے کہ جشن منانے کے ساتھ ساتھ آئین سے اپنا رشتہ مضبوط کیا جائے، آئین کا مطالعہ کیا جائے بالخصوص باب ۳؍ کو سمجھا جائے اور بنیادی حقوق کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے ۔