کوئی بھی قوم محض مواقع اور وسائل کے سبب ترقی نہیں کرتی، ترقی کا زینہ اُن اقدار کے اینٹ گارے سے بنتا ہے جن کی اہمیت اور تحفظ موجودہ دَور میں بالکل نہیں ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حقیقی ترقی خواب بن گئی ہے۔ جنہیں اپنی ترقی پر ناز ہے، ترقی اُن پر نازاں نہیں ہے۔
پٹوردھن صاحب کا ذکر اس کالم میں پہلے بھی ہوچکا ہے۔۸۴؍ سال کے جوان ہیں ۔ اس عمر میں بھی صحتمند رہنے کا راز یا تو وہ جانتے ہیں یا اُن کے طبی مشیرمگر کوئی مجھ سے پوچھے تو مَیں کہوں گا کہ اُن کی صحت کا راز یہ ہے کہ وہ اُردو بولتے ہیں ، اُردو لکھتے ہیں ، اُردو پڑھتے ہیں ، اُردو کے اشعار سنا کر خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی محظوظ فرماتے ہیں ۔ کوئی مانے یانہ مانے، اُردو بولنے اور سننے کا صحت پر خوشگوار اثر تو پڑتا ہی ہے۔ جب سے سوشل میڈیا عوام کا روزمرہ بنا ہے، آئے دن لوگ ایک دوسرے کو اُردو کے اشعار یوں ہی روانہ نہیں کرتے۔ ہندی اخبارات کی ویب سائٹس دیکھ لیجئے، اُردو شاعری کو پسند نہ کیا جارہا ہوتا تو بہت سی ویب سائٹس روزانہ شاعری کیوں پوسٹ کرتیں ؟ اگر آج کل کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ موسیقی سننے سے دل کو راحت ملتی ہے تو اُردو پڑھنے اور سننے سے راحت کیوں نہ ملتی ہوگی! مجھے تو ملتی ہے۔ پٹوردھن صاحب کو بھی ملتی ہے۔ پچھلے ہفتے باتوں باتوں میں اُنہوں نے نظیر (اکبرآبادی) کے یہ مصرعے سنائے:
جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے اور تن درست
پٹوردھن صاحب اس حقیر کا مضمون پڑھنے کے بعد ہر سنیچر کو لازماً فون کرتے ہیں اور ہنستے ہنستے کہتے ہیں کہ جب تک آپ لکھ رہے ہیں ، آپ کو ہمارے فون سے نجات نہیں مل سکتی۔ دوران گفتگو وہ کبھی کوئی مقولہ سنا تے ہیں کبھی کوئی شعر، کبھی کبھار اپنا موزوں کیا ہوا کلام بھی عنایت فرماتے ہیں ۔ علم و ادب کے قدردانوں کے فون اس لئے راحت افزا اور سکون بخش ہوتے ہیں کہ اُن میں دُنیاداری نہیں ہوتی بلکہ غوروفکر کیلئے کوئی نہ کوئی نکتہ ملتا ہے۔ اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اگر فون کرنے والا بے ریا انسان ہے تو گفتگو کے بعد بڑی تازگی کا احساس ہوتا ہے جیسے وضو کرکے اُٹھے ہوں ۔ خیر، پٹوردھن صاحب نے بتایا کہ اُنہوں نے یہ شعر اپنے اُردو کے استاذ محمد حسین پرکار صاحب سے سنا تھا جو اُنہیں اب تک یاد ہے۔ یہ سن کر مجھے اچھا لگا۔ فون رکھنے کے بعد بھی مَیں ان دو مصرعوں پر غور کرتا رہا۔ پھر نظیر کا کلیات نکال کر نظم کی قرأت کی۔ خاص بات یہ ہے کہ سات بندوں پر مشتمل نظم کے ہر بند میں نظیر نے تندرستی کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے مگر خدا سے صرف تندرستی کی دُعا نہیں کی۔ ٹیپ کا دوسرا مصرعہ دیکھئے: ’’اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست‘‘۔ تندرستی کے ساتھ تحفظ ِ آبرو کی تمنا نہ تو شعری ضرورت کے تحت ہوسکتی ہے نہ ہی بے وجہ۔ لفظ ’’آبرو‘‘ کا استعمال یہ سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ نظیر کی نظر میں جتنی اہمیت تندرستی کی ہے اُتنی ہی آبرو کی بھی ہے، یہ الگ بات ہے کہ نظم میں آبرو کی اہمیت پر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے، صرف صحت اور تندرستی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ نظیر نے ایسا کیوں کیا یہ پوچھا جاسکتا تھا اگر وہ بقید حیات ہوتے۔ چند سال بعد اُن کی وفات کو دو صدیاں گزر چکی ہوں گی۔
یہ بھی پڑھئے: قانون کی غیر حقیقی تشریح کا شاخسانہ
سوال یہ ہے کہ کیا آبرو کی اُتنی ہی اہمیت ہے جتنی تندرستی کی؟ اس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ سوال کرنے والا کون ہے۔ وہ مادّی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کرنے والا انسان ہے یا غیر مادّی مقاصد و مفادات سے بھی اُس کا کچھ علاقہ ہے۔ آبرو کی ترکیب پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ ’’آب‘‘ (پانی) اور ’’رو‘‘ (چہرا) کا مرکب ہے جس کا لفظی معنی ہوگا چہرے کی تازگی، بشاشت، رونق، نور، مگر اس معنی میں اس لفظ کا استعمال میری نظر سے نہیں گزرا۔ آبرو جن معنوں میں عموماً مستعمل ہے وہ اس طرح ہیں : عصمت، عفت، ناموس، پاک دامنی، عزت، اعزاز، قدر و منزلت، ناموری، شرف، شہرت، چمک دمک، تابانی، درخشانی، لاج شرم، ساکھ، اعتبار، وقار، بھرم، حیثیت اور دیگر۔ مشکل یہ ہے کہ فی زمانہ اتنے حیران کن اور واہیات قسم کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں کہ ’’آبرو‘‘ کا استعمال تو نہیں ہوتا، ’’آبروریزی‘‘ کے واقعات ضرور موضوع بحث بنتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ہماری روزمرہ کی بول چال میں جتنی مرتبہ ’’آبرو‘‘ نہیں آتا اُس سے زیادہ ’’آبروریزی‘‘ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ اِس دور کا قصور تو ہے جو تمام اخلاقی حدوں کو توڑ دینے کے درپے ہے مگر اس دَور میں رہنے والوں کا بھی کم قصور نہیں ہے جنہیں آبرو کی فکر نہیں رہ گئی ہے۔ ’’آبرو‘‘ کے توسیعی معنی میں عزت ِ نفس کا بھی محل ہے، غیرت، خودداری اور خودی کا بھی، جس کی بلندی پر اقبالؔ نے مژدہ سنایا تھا کہ خدا بندے سے خود اُس کی رضا کے بارے میں پوچھے گا۔ اپنی حیثیت، مرتبہ، شرف اور عزت ِ نفس کو بھول جانے والی قومیں آبرو مند کہاں رہ جاتی ہیں ؟ آبرومندی کی جگہ ذلت و خواری لے لیتی ہے جو اُن کے ماضی کی شان و شوکت کو بے قیمت کر دیتی ہے کیونکہ دیکھنے والے اُن کا حال دیکھتے ہیں جو ماضی کی گواہی نہیں دیتا یا ماضی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ حال، حال نہیں جو ماضی کی گواہی اور مستقبل کی بشارت نہ دے۔ وہ حال بھی حال نہیں جو بدحالی کے سبب غفلت اور غفلت کے سبب بدحالی کا نقشہ پیش کرے۔ آبرومند قومیں اپنی زبان، تہذیب اور معاشرت کی فکر کرتی ہیں اور اُن کے تحفظ کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار رہتی ہیں ۔ اسکے برعکس جن قوموں کی آبرومندی داغ مفارقت دے چکی ہو وہ اپنی زبان سے بے بہرہ، تہذیب سے ناآشنا اور معاشرت سے لاتعلق ہوجاتی ہیں اور غیروں کی زبان و تہذیب و معاشرت کو گلے لگانے میں فخر کرتی ہیں ۔ ایسا شخص جو اپنا نام یاد نہ رکھے اور پوچھنے پر کسی اور کا نام بتائے اُس کے ذہنی توازن پر کس کو شک نہیں ہوگامگر حیرت ہے کہ اپنی زبان و تہذیب کو یاد نہ رکھ کر اوروں کی زبان و تہذیب اپنانے والوں پر کوئی شک نہیں کر رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ غیروں کی تقلید کے معاملے میں آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو جب اپنی زبان و تہذیب کو اپنی آبرو سمجھنے کا رجحان حالت ِ نزع میں ہے۔ اس کے آگے پیچھے آبرو کو آبرو سمجھنے کے رجحان پر بھی انا للہ پڑھنا پڑے گا۔ وائے حیرت کہ آبرو سے زیادہ معاشرہ میں ’’اَبرو‘‘ کی فکر ہورہی ہے۔ خواتین تو خواتین ، اَبرو تراشنے کا فیشن اب مردوں میں بھی عام ہوچلا ہے ۔