• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوالات کے گھیرے میں نئے فوجداری قوانین

Updated: July 22, 2024, 2:23 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

یکم جولائی سے نئے فوجداری قوانین نافذ ہوچکے ہیں۔ ان قوانین اور ان کے مشمولات پر ماہرین کو شدید اعتراض ہے جنہوں نے سوال اٹھائے مگر حکومت نے ان کا جواب دیا نہ ہی اُن کی بے اطمینانی کو دور کیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

مرکزی حکومت نے انڈین پینل کوڈ، ۱۸۶۰، کریمنل پروسیجر کوڈ ۱۹۷۳ اور انڈین ایویڈینس ایکٹ ۱۸۷۲ کو تبدیل کرنے (اور دوبارہ نافذ کرنے) گزشتہ سال نومبر میں  منظور کئے۔ نئے بلوں  کے نام ہندی (یا سنسکرت) میں  ہیں ، حتیٰ کہ ان کے انگریزی ترجمہ میں  بھی۔ صدر نے ان بلوں  کو منظوری دی اور حکومت نے مطلع کیا کہ نئے قوانین یکم  جولائی ۲۰۲۴ء سے نافذ کئے جائیں  گے۔
کئی حلقوں  کی جانب سے نئے قوانین کی سخت مخالفت کی گئی لیکن حکومت نے ان اعتراضات کو بے معنی اور یک طرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ حکومت کا جبری رویہ اور من مانی بھی ان قوانین کی مخالفت کو روکنے میں  ناکام رہی۔ دو ریاستی حکومتوں  نے اعلان کیا ہے کہ وہ متعلقہ ریاستی مقننہ میں  ترامیم متعارف کروائیں  گے۔ تمل ناڈو نے ایک ماہ کے اندر تبدیلیاں  تجویز کرنے کے لئے ایک رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔ کرناٹک اور دیگر ریاستی حکومتیں  بھی اسی راستہ کو اختیار کر سکتی ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ حقائق اور مسائل کو عوام کے سامنے رکھا جائے اور شہریوں  سے کہا جائے کہ وہ خود فیصلہ کریں ۔
آئین کے مطابق فوجداری قانون، مرکز اور ریاستوں  کی مشترکہ فہرست میں  شامل ہے۔ پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ دونوں  اس موضوع پر قانون بنانے کے مجاز ہیں ۔ اگر پارلیمنٹ کا بنایا قانون اور ریاستی مقننہ کا بنایا قانون مخالف ہوئے تو آئین کی دفعہ ۲۵۴؍ کے تحت پارلیمنٹ کے بنائے قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا جائیگا۔ تاہم، یہ مسئلہ ریاستی مقننہ کی جانب سے قانون بنانے کے بعد پیدا ہوگا، جب وہ، پارلیمانی قانون کے خلاف ہو اور صدر نے ریاستی مقننہ کے منظور کردہ قانون کو اپنی منظوری نہ دی ہوں ۔ دریں  اثنا، نئے قوانین کی مخالفین کے سوالات کو سننا اور ان کا جواب دینا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں  یا باہر جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن یہ سوالات کافی اہم ہیں : کیا یہ درست کہا جارہا ہے کہ نئے قوانین کی دفعات کا بڑا حصہ پرانے قوانین سے `کاپی پیسٹ کیا گیا ہے جنہیں  تبدیل کیا گیا تھا؟ کیا یہ درست ہے کہ آئی پی سی اور سی آر پی سی کے ۹۰ ؍تا ۹۵ ؍فیصد اور ایویڈینس ایکٹ کے ۹۵؍ تا ۹۹؍ فیصد کو نئے قوانین میں  برقرار رکھا گیا ہے اور دفعات کی ترتیب بدل دی گئی ہے؟ اگر موجودہ قوانین میں  چند اضافے، حذف اور تبدیلیوں  کی ضرورت تھی تو کیا ترمیمی بل کے ذریعے تبدیلیاں  کیوں  نہیں  کی گئی؟ کیا حکومت کا ’نوآبادیاتی میراث‘ کو باہر پھینکنے کا دعویٰ کھوکھلا ہے؟
اگر حکومت کا فوجداری قوانین پر مکمل نظرثانی اور غیر معمولی تبدیلیاں  متعارف کرانے کا ارادہ تھا تو یہ کام لاء کمیشن کے حوالے کیوں  نہیں  کیا گیا جو کہ روایتی اور آزمودہ طریق کار ہے؟ کیا لاء کمیشن اس کام کیلئے موزوں  ادارہ نہیں  تھا جو تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرکے اپنی سفارشات اور بل کا مجوزہ مسودہ، حکومت اور پارلیمنٹ کی خدمت میں  پیش کرتا؟ لاء کمیشن کو نظرانداز کرکے یہ کام ایک کمیٹی کے سپرد کیا گیا جو جز وقتی ممبران پر مشتمل تھی، جن میں  ایک ممبر کو چھوڑ کر دیگر ممبران مختلف یونیورسٹیوں  میں  کل وقتی پروفیسروں  کے طور پر کام کر رہے تھے؟ کیا نئے قوانین، فوجداری سائنس کے جدید اصولوں  سے مطابقت رکھتے ہیں ؟ کیا نئے قوانین پچھلے۱۰؍ سال میں  دیئے گئے تاریخی فیصلوں  میں  سپریم کورٹ کے وضع کردہ ترقی پسند اصولوں  کو تسلیم کرتے ہیں  اور کیا اس کا خیال رکھا گیا ہے؟ کیا نئے قوانین کی کئی دفعات، سپریم کورٹ کی آئین ہند کی تفہیم کے منافی ہیں ؟
نئے قانون میں  `سزائے موت کیوں  برقرار ہے جسے بیشتر جمہوری ممالک میں  ختم کر دیا گیا ہے؟ ’قیدِ تنہائی‘ کی ظالمانہ اور غیر انسانی سزا کیوں  متعارف کرائی گئی ہے؟ `زنا  کے جرم کو فوجداری قانون میں  کیوں  واپس لایا گیا ہے؟ کیا ’ہتک عزت‘ کو مجرمانہ جرم کے طور پر برقرار رکھنا ضروری تھا؟ کیا ’ہتک عزت‘ کی مجرمانہ شکایت درج کرانے کے لئے ایک مدت کا تعین کرنا ضروری نہیں  تھا؟ دوسرے شخص کی رضامندی کے بغیر ہم جنس تعلقات اب جرم کیوں  نہیں  رہے؟ کیا `کمیونٹی سروس  کی سزا کو واضح کرنا ضروری نہیں  تھا یا کم از کم اس کی مثالیں  پیش کردی جاتیں ؟ ’غداری‘ کے جرم کا دائرہ کار بڑھا کر اسے برقرار کیوں  رکھا گیا ہے؟ ’دہشت گردی‘ کے جرم کو عام فوجداری قانون میں  کیوں  شامل کیا گیا جب کہ یو اے پی اے کی شکل میں  خصوصی ایکٹ موجود ہے؟ نئے قانون میں  `انتخابی جرائم  کو کیوں  شامل کیا گیا ہے جب عوامی نمائندگی ایکٹ ۱۹۵۰   اور عوامی نمائندگی ایکٹ، ۱۹۵۱، کے نام سے اس ضمن میں  خصوصی قوانین موجود ہیں ؟ کیا نئے قوانین نے پولیس کیلئے کسی شخص کو گرفتار کرنااور اس کو پولیس تحویل میں  لینا زیادہ آسان بنادیا ہے؟ کیا نئے قوانین نے سپریم کورٹ کے اس حکم کو نظر انداز کر دیا ہے کہ پولیس کے پاس گرفتار کرنے کا اختیار ہونے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ گرفتار کرنا اشد ضروری ہے؟ کیا قانون میں  واضح طور پر یہ بتانا ضروری نہیں  تھا کہ ’’ضمانت قانون ہے، جیل استثنیٰ ہے؟‘‘ کیا مجسٹریٹ کو گرفتاری کی قانونی حیثیت اور گرفتاری کی ضرورت کو جانچنے کا پابند کرنا ضروری نہیں  تھا؟ کیا ضمانت کی دفعات کے مطابق، مجسٹریٹ کیلئے گرفتاری کے بعد ۴۰ ؍تا ۶۰؍ دنوں  کیلئے ضمانت مسترد کرنا ضروری ہے؟
کیا وہ شق جو جرم کی جگہ سے قطع نظر، ملک کے کسی بھی تھانے میں  ایف آئی آر درج کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے، آئینی ہے؟ کیا وہ شق، جو اُس ریاست کی پولیس کو ملزم کو گرفتار کرنے اور جرم کی تفتیش کرنے کا اختیار دیتی ہے، غیر آئینی ہے کیونکہ `پولیس ریاستی فہرست میں   شامل ہے؟ کیا مذکورہ شقیں  وفاقیت کے اصول کے خلاف ہیں  جو آئین ہند کی بنیادی خصوصیت ہے؟ایسے مزید کئی سوالات ہیں  لیکن سوال پوچھنے اور جواب حاصل کرنے کا پلیٹ فارم کہاں  ہے؟ مودی حکومت سے وابستہ کسی بھی وزیر یا شخص نے بھی اب تک ان سوالات کا جواب نہیں  دیا ہے۔ ان کے نظر انداز کرنے سے سوالات ختم نہیں  ہوں  گے۔ اس کے باوجود نئے قوانین، جو ملک میں  فوجداری انصاف اور نظم و نسق اور انتظام کیلئے سب سے زیادہ بنیادی اور ضروری ہیں  نافذ ہو چکے ہیں ۔ اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ حکومت چند لوگوں  کی حکومت ہے اور چند لوگوں  کیلئے ہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK