• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نئی حکومت اورمسلمانوں کے مسائل!

Updated: July 11, 2024, 1:12 PM IST | Mumbai

انتخابی تشہیر کے ماحول میں جس طرح مسلم اقلیت کے خلاف اکثریت طبقے کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اس سے پورے ملک میں اقلیت طبقے کیلئے خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوا مگر قابلِ احترام ہیں اکثریت طبقے کے سنجیدہ افراد جن کی کوششوں سے زہرا فشانی کے اثرات زائل ہوئے ۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اس تلخ حقیقت سے نہ صرف ہندوستان کے لوگ بلکہ عالمی برادری بھی بخوبی واقف ہے کہ حالیہ پارلیمانی انتخاب ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے لئے بہت مشکل اور آزمائش کا انتخاب تھا۔کیونکہ انتخابی تشہیر کے ماحول میں جس طرح مسلم اقلیت کے خلاف اکثریت طبقے کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اس سے پورے ملک میں اقلیت طبقے کے لئے خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوا مگر قابلِ احترام ہیں اکثریت طبقے کے سنجیدہ افراد جن کی کوششوں سے نہ صرف زہرا فشانی کے اثرات زائل ہوئے بلکہ انتخابی نتائج کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی بھی کوشش کی گئی کہ ہمارا ملک مختلف مذاہب ، تہذیب وتمدن اور لسانی تنوع کا گہوارہ ہے اور ہماری تہذیب سب کو گلے لگانے کی رہی ہے ورنہ راجستھان کے بانسواڑہ سے جس طرح مسلم اقلیت کے خلاف اعلان کیا گیا تھا اگر اکثریت طبقہ اس سیاسی شطرنجی چال کو ناکام نہیں کرتے تو ملک میں اقلیت مسلم طبقے کا جینا دشوار ہوگیا ہوتا۔لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بانسواڑہ میں جو اشتعال انگیز نعرہ لگایا گیا اس کے اثرات کہیں نہ کہیں انتخابی نتائج کے بعد معمولی ہی سہی مگر دکھائی دے رہے ہیں ۔ اترپردیش ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ دراصل مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور کی نا پختگی کی وجہ سے بھی ان کے مسائل میں اضافے ہوتے رہتے ہیں ۔مثلاً اس پارلیمانی انتخاب میں بھی کئی حلقوں میں مسلم طبقے کی غیر سنجیدگی نے نقصان پہنچایا ۔ریاست بہار کی ارریہ اور اتر پردیش کے امروہہ پارلیمانی حلقے کے نتائج اس کی زندہ مثال ہے ۔ ارریہ میں اگرآزاد امیدواروں کے ووٹوں کا شمار کیجئے تو یہ تلخ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہاں آزاد امیدواروں کو جتنے ووٹ حاصل ہوئے اگر وہ ووٹ وہاں کے راجد امیدوار کو مل گیا ہوتا تو وہ کامیاب ہو جاتے اسی طرح اگر امروہہ میں جتنے ووٹ مایاوتی کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کو ملا اگر وہ ووٹ دانش علی کو مل گیا ہوتا تو وہ بھی کامیاب ہوتے۔یہ لمحۂ فکریہ ہے۔
 بہر کیف! اب پارلیمانی انتخاب کے نتائج پر سر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہے کہ نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے ۔ مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اب بھی مسلمانوں کے خلاف ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈہ کم نہیں ہوا ہے اور سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ گمراہ کن رپورٹیں جاری ہو رہی ہیں اور مسلم طبقے کے خلاف ایک ماحول بنانے کی سا زش چل رہی ہے۔ حال ہی میں ایک غیر سرکاری رضا کار تنظیم پیپلس ریسرچ آن انڈیاز کنزیومر اکانومی (پرائس ) نے ایک اپنے سروے میں یہ گمراہ کن رپورٹ جاری کی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آمدنی میں ۲۸؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ ہندو طبقے کی آمدنی میں صرف ۱۹؍ فیصد کا اضافہ ہواہے۔ ظاہر ہے کہ اس ملک میں مسلم طبقے کی بد حالی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اس کے باوجود اگر اس طرح کی رپورٹیں عام ہوتی ہیں تو گمرہی پھیلنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ۔تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ۲۰۱۶ء میں ہندوئوں کی ماہانہ آمدنی ۲۴۶۶۷؍روپے اور مسلمانوں کی ماہانہ آمدنی ۲۲۷۵۰؍روپے تھی۔ جب کہ ۲۰۲۳ء میں مسلمانوں کی آمدنی میں ۲۸؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔اس رپورٹ میں یہ ڈاٹا بھی دیا گیا ہے کہ ملک کے ۱۵؍فیصد مسلمان گریجویٹ ہیں اور ان میں ۱۳؍فیصد سرکاری اور غیر سرکاری ملازمت میں ہیں جب کہ یہ سفید جھوٹ ہے ۔دراصل اس طرح کی تنظیمیں گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں طرح طرح کا ڈاٹا پیش کر رہی ہے اور ملک کی مختلف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف گمرہی پھیلا رہی ہے جس سے مسلمانوں کے تئیں منفی رجحانات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ کئی نجی کمپنیوں نے مسلمانوں کو ملازمت دینے میں بھی تنگ نظری دکھائی ہے ۔ اگرچہ سرکاری نوکریوں میں اس طرح کی تفریق نہیں ہوئی ہے اور سرکاری اسامیوں میں جو تخفیف ہوئی ہے اس سے لوگ باگ بخوبی واقف ہیں۔میرے خیال میں اس طرح کے گمراہ کن ڈاٹے جب شائع کئے جاتے ہیں تو مسلم اقلیت تنظیموں کی طرف سے بھی اس کی حقیقت سامنے لانے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ برادرِان وطن کے ذہن میں کسی طرح کا تعصب جگہ نہ لے سکے کیوں کہ اکثریت طبقے کی ایک بڑی آبادی بھی یہ سمجھتی ہے کہ حالیہ برسوں میں کس طرح کی گمرہی پھیلائی جا رہی ہے لیکن مسلم طبقے کی طرف سے خاموشی دکھائی دیتی ہے ۔وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس طرح کی گمراہ کن رپورٹوں پر ہماری نظر رہے اور اس کی صرف مذمت نہ کی جائے بلکہ اس کی حقیقت سے اکثریت طبقے کو روشناس کرایا جائے تاکہ اس طرح کی گمرہی کا ازالہ ہو سکے۔
 اس پارلیمانی انتخاب میں ایک خوش آئند بات یہ دیکھنے کو ملی کہ تشہیری اجلاس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کو اکثریت طبقے کے لوگوں نے سننے کے باوجود نہ صرف اَن سنی کردی بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ یہ سب سیاسی بیانات ہیں ہم کبھی بھی اپنے پڑوسیوں پر منگل سوتر اور بھینس چھیننے کاجھوٹا الزام نہیں لگا سکتے اور ان کی یقین دہانی کی حقیقت پارلیمانی انتخاب کے نتائج میں بھی ثابت ہوئی۔اس لئے جب کبھی مسلم طبقے کے خلاف سرکاری یا غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ گمراہ کن باتیں پھیلائی جاتی ہیں تو اس کے تدارک کے لئے ٹھوس حکمت عملی بنانی ہوگی اور آئینی حقوق کی حفاظت کیلئے قانونی چارہ جوئی کی راہ بھی اختیار کرنی ہوگی۔ کیونکہ بہت سی ایسی غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو حکومت کی پالیسی کے خلاف بھی کام کر رہی ہیںاس لئے حکومت تک بھی اپنی بات پہنچانی ہوگی کہ کس طرح ہمارے خلاف افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں اور اکثریت طبقے میں گمراہی پیدا کی جا رہی ہے ۔کیونکہ اس طرح کا عمل ملک کی سا لمیت کیلئے بھی بہت مضر ہے ۔ہمارے عوامی نمائندوں کو بھی ہوشیار رہنا چاہئے اور وہ اس طرح کی گمرہی کی حقیقت سے ریاستوں کی اسمبلیوں میں اور پارلیمنٹ میں آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ حقیقت حکومت تک بھی پہنچ سکے اور مسلم اقلیت طبقے کے خلاف گمراہی پھیلانے والی تنظیموں پر نکیل کسنے کی کارروائی ہو سکے ، ملک وقوم کے مفاد ایسا کیا جانا بہت ضروری ہے ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK