وقف بل پہلے لوک سبھا پھر راجیہ سبھا میں پاس ہوچکا ہے۔ صدرجمہوریہ کی منظوری کے ساتھ وقف بل قانون بن گیا ہے۔ اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ چند سوالات ضرور پوچھے جاسکتے ہیں۔
صدر جمہوریہ کی منظوری کے ساتھ وقف بل (مسعودۂ قانون) قانون بن گیا۔ اس کے بارے میں طرفین نے الگ الگ دعوے کئے۔ حزب اقتدار کی طرف سے کہا گیا کہ کبھی یہ دعویٰ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جس زمین یا جگہ پر پارلیمنٹ کی عمارت ہے وہ وقف کی ہے مگر یہ نہیں کہا گیا یا بتایا گیا کہ ایسا کہنے کی بنیاد کیا ہے؟ دوسری طرف سیاسی بیان بازی کے علاوہ کئی قانونی پہلو پر بھی بات ہوئی۔ کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی جیسے ماہرین قانون کی تقریریں راقم نے یوٹیوب پر سنی ہیں ۔ بڑی مدلل اور غیر جذباتی تقریریں تھیں ۔ ان تقریروں کے بعد تو وقف بل کو صدرجمہوریہ کی منظوری ہی نہیں ملنا چاہئے تھی مگر صدرجمہوریہ منظوری دے چکی ہیں اور اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مثالیں دونوں طرح کی ہیں مثلاً:
lیکم دسمبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ نے این جے اے سی خارج کرنے سے متعلق اپنے ہی فیصلے کے خلاف داخل کی گئی ریویو پٹیشن کو خارج کر دیا تھا۔
۷l؍ نومبر ۲۰۲۲ء کو سپریم کورٹ نے ای ڈبلیو ایس کیٹیگری کو دیئے جانے والے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کی دستوری حیثیت کو برقرار رکھا تھا۔
۱۱l؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے کہا کہ جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ ۳۷۰؍ عارضی تھی۔
۱۵l؍ فروری ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے سیاسی پارٹیوں کو دیئے جانے والی اسکیم الیکٹورل بانڈ کو خارج کر دیا تھا۔
خیر سپریم کورٹ میں آئندہ جو ہوگا سو ہوگا، سردست اس قانون کے نافذ ہونے کی صورت میں جو تبدیلیاں ہونگی ان میں چند یہ ہیں :
lوقف میں اب دوسرے مذہب کو ماننے والا شخص عطیہ نہیں دے سکے گا یا وقف نہیں کرسکے گا بلکہ وہی شخص وقف کرسکے گا جو پچھلے پانچ سال سے عملی پریکٹیسنگ مسلمان ہو۔ یہ لفظ تشریح طلب ہے کیونکہ مسلمانوں میں ایسے لوگوں سے سابقہ پڑتا رہتا ہے جو نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں نہ شعار اسلامی کا احترام کرتے ہیں مگر ان سے کچھ کہو تو کہتے ہیں کہ اسلام کے ٹھیکیدار تمہی ہو کیا؟
lخواتین کے وراثت کے حق کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اچھا ہے وقف کے علاوہ بھی اس پر عمل ہونا چاہئے۔
۱۹۹۶lء کے قانون میں وقف بورڈ کو وقف زمین کا اعلان کرنے اور اس کے انتظام کرنے کا حق تھا لیکن نئے بل میں یہ اختیار و حق ان افسروں یا حکام کو سونپ دیا گیا ہے جو ریاستی حکومت مقرر کرے گی۔
lوقف قانون میں ایسی ترمیم بھی کی گئی ہے کہ آدیواسیوں کی زمین وقف نہ کی جاسکے۔ صاف کہا گیا ہے کہ شیڈول ۵؍ اور شیڈول ۶؍ میں شامل جائیداد کو وقف نہیں کیا جاسکتا۔
lوقف صرف اسی زمین جائیداد کو مانا جائے گا جو قانونی اعتبار سے وقف کی گئی ہو۔ بابری مسجد شہادت کے سلسلے میں جو فیصلہ صادر ہوا تھا اس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ بابری مسجد میں نماز ہوتی رہی، مورتی غلط نیت اور انداز سے رکھی گئی تھی، اس کو من مانے یعنی غلط ڈھنگ سے مسمار کیا گیا جو غلط تھا مگر اس کے مسجد یا وقف ہونے کی کوئی تحریر نہیں ہے۔
وقف بل بدھ کو لوک سبھا میں پیش ہوا جس میں جے پی سی یعنی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی سفارشات کے بعد بھی تبدیلیاں ہوتی رہیں ۔ ایک تبدیلی تو منگل اور بدھ کی درمیانی شب میں بھی کی گئی۔ اس کے باوجود اس قانون میں کئی ایسی باتیں ہیں جن پر مسلمانوں کو اعتراض ہے مثلاً:
lوقف بورڈ کا کمپوزیشن بدلنے اور اس میں ۲؍ غیر مسلم ممبران کو شامل کرنے سے وقف اداروں کی انتظامیہ میں فرق آئے گا اور مسلمانوں کے اختیارات متاثر ہوں گے۔
lوقف کی تشکیل میں وراثت سے متعلق قانون بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
lدفعہ ۳؍ سی جوڑے جانے سے یہ فیصلہ اب کلکٹر کرے گا کہ وقف جائیداد وقف ہے یا سرکار کی؟
lوقف کی جائیداد پر بھی گزشتہ ۱۲؍ سال سے جو قابض ہے وہ مالک ہوجائے گا دوسرے مذاہب کے ٹرسٹس کی جائیداد پر یہ قانون نافذ نہیں ہے۔
lدفعہ ۱۰۴؍ وقف کے استعمال کے مقصد سے جڑی ہوئی تھی اس کو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ واقف خود یہ طے کرتا ہے کہ اس کے ذریعہ کیا جانے والا وقف کس مقصد سے ہے۔
lسرکاری اکائیوں کو وقف کی جائیداد ہڑپ کرنے کا حق مل جائیگا۔
یہ بھی پڑھئے: ایک صدی کا ہندوستان اور مسلمان
یہ تو امید نہیں تھی کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف متحد ہو جائینگے البتہ اختلافات کو کم کئے جانے کی امید کی جا رہی تھی مگر یہ امید پوری نہیں ہوئی ہم جیسے لوگ جو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں کہ وقف کی جائیدادوں میں کتنی بدعنوانی اور بدانتظامی کی جاتی رہی ہے اب بھی مطمئن نہیں ہیں ۔ حزب اقتدار یہ بھی بتانے سے قاصر رہا ہے کہ موجودہ وقف قانون عام مسلمانوں یا غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گا۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ وقف کا غلط استعمال کرنے والوں کو پکڑا جائے، امیت شاہ نے بھی یہی کہا ہے مگر قانون سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ کیسے ہوگا؟ کیا وقف کی زمین جائیداد پر ۱۲؍ سال کا قبضہ دکھا کر حق ملکیت حاصل کر لینا بدعنوانی کا خاتمہ ہے؟
میں کسی سیاسی ذہن سے یا کسی خاص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایسے سوال نہیں پوچھ رہا ہوں ، میرا مقصد یہ جاننا ہے کہ یہ قانون کس طرح مسلمانوں کے لئے مفید ہے اور حزب اختلاف پر یہ الزام کیوں لگایا جا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ورغلا رہا ہے۔ ادھر ایک فیشن اور چل پڑا ہے کہ جناح کیپ لگا کر یا داڑھی رکھ کر مسلم اجتماعیت کیخلاف بیانات دلوائے جا رہے ہیں ۔ وقف بل کی حمایت کرنے والوں میں بھی ایسے لوگ دیکھے گئے ہیں ، یہ لوگ حکمراں جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایک بات اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ ۱۹۱۳ء سے ۲۰۱۳ء تک وقف زمین ۱۸؍ لاکھ ایکڑ تھی اس میں ۲۰۱۳ء سے ۲۰۲۵ء تک ۲۱؍ لاکھ ایکڑ زمین بڑھ گئی۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ وقف زمین کا غلط استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ جو زمین جائیداد لیز پر دی گئی تھی وہ ۲۰؍ ہزار تھی اور ابھی یہ صفر ہوگئی تو آخر گئی کہاں ؟ اگر بیچی گئی تو کس کی اجازت سے بیچی گئی؟ میں ان سوالوں کو جائز سمجھتا ہوں مگر یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وزیر داخلہ سوال کیوں پوچھ رہے ہیں ان کو تو بتانا چاہئے کہ ان لوگوں نے وقف کی زمین جائیداد میں خرد برد کیا یا ہڑپ لیا اور اب ایسا کرنے والوں کا گلا ناپا جا رہا ہے؟